إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا
بلاشبہ انسان تھڑدلا [١٢] پیدا کیا گیا ہے
فہم القرآن: (آیت 19 سے 28) ربط کلام : چمڑیاں ادھیڑدینے والی آگ سے بچنے والے لوگوں کے اوصاف۔ انسان کی طبعی کمزوریوں میں ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ جلد باز ہے۔ اسی جلد بازی کی وجہ سے انسان دنیا کے فائدے کی خاطر حق بات سے منہ موڑ تا، ناجائز طریقے سے مال بناتا اور اسے جمع رکھتا ہے۔ اگر انسان اپنی جلدبازی پر قابو پالے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے منہ موڑ کرنہ کسی کا مال بٹورے اور ہی ناجائز طریقے سے مال جمع کرے۔ یہ جلد بازی کا نتیجہ ہے کہ جب اسے مال کی تنگی اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرا اٹھتا ہے اور جزع فزع کرنے لگتا ہے جب اسے مال حاصل ہوتا ہے توبخیل بن جاتا ہے۔ یہاں گھبراہٹ اور بخل کا حوالہ دے کر دو حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اے انسان ! آج معمولی تکلیف پرتو چونک اٹھتا ہے۔ غور کر! کہ تو جہنم کی آگ اور اس کی سختیوں کو کس طرح برداشت کرے گا؟ پچھلی آیت میں مال جمع کرنے کا نقصان بتلایا گیا ہے، یہاں فرمایا ہے کہ جب انسان کو مال ملتا ہے تو اسے خرچ کرنے کی بجائے بخل کرتا ہے۔ یادرہے! جہاں مال کے فائدے ہیں وہاں اس کا یہ نقصان ہے کہ جوں جوں مال جمع ہوتا ہے توں توں انسان طبعی طور پر اتنا ہی حریص اور بخیل ہوتا جاتا ہے بالخصوص جو شخص حرام ذرائع سے مال جمع کرتا ہے اس میں دوسروں کی نسبت بخل زیادہ پایا جاتا ہے۔ جلد بازی اور بخل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نماز کو اس کے تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے ادا کیا جائے۔ جو شخص اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرتا اور اس پر ہمیشگی اختیار کرتا ہے۔ اسے طبیعت کی جلد بازی پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ جو حلال ذرائع سے مال کماتا ہے اس میں فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ میرے رب نے میرے مال میں سائل اور غریب کا ایک حصہ مقرر کر رکھا ہے جو ہر صورت مجھے ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اگر میں نے یہ کام نہ کیے تو قیامت کے دن مجھے سزا ہوگی۔ اس لیے وہ جہنم کے عذاب سے ڈرتا ہے، اس کا ایمان ہوتا ہے کہ جہنم کے عذاب سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَائِرُ) (رواہ مسلم : کتاب الطھارۃ، باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَتَعَوَّذُ یَقُولُ ” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ“ ) (رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب التعوذ من أرذل العمر) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے اور یہ دعا کرتے کہ اے اللہ میں سستی، بزدلی، ناکارہ پن بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل: 1۔ انسان طبعی طور پر جلد باز واقع ہوا ہے جس وجہ سے معمولی تکلیف پر گھبرا اٹھتا ہے۔ 2۔ انسان کو مال حاصل ہو تو اس میں بخل پیدا ہوجاتا ہے۔ 3۔ نماز کو ہمیشہ اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنے والا اپنی جلد بازی پر قابو پا لیتا ہے۔ 4۔ جس کا قیامت پر حقیقی ایمان ہے وہ اپنے مال میں سائل اور غریب کا حق سمجھتا ہے۔ 5۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے عذاب سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں۔ 6۔ رب کے عذاب سے کسی صورت بھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔