مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ
(یہ عذاب) اللہ کی طرف سے (آئے گا) جو بلندیوں کا مالک [٢] ہے
فہم القرآن: (آیت 3 سے 4) ربط کلام : کفار کو جس عذاب یا قیامت کے بارے میں انتباہ کیا جاتا ہے وہ ” اللہ“ کی طرف سے آئے گی جو ” اللہ“ بڑا ہی بلندو بالا ہے۔ مَعَارِ جْ ” مَعْرِجٌ“ کی جمع ہے جس کا معنٰی سیڑھی یا بلندی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے بلند وبالا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی ذات کے بارے میں المعارج کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ کچھ مفسرین نے المعارج سے مراد وہ بلندیاں لی ہیں جس کو طے کرتے ہوئے ملائکہ اپنے رب کے حضور پیش ہوتے ہیں بظاہر یہ مفہوم لینے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ تاہم اس سے پہلی مراد رب کبریاء کی ذات ہے۔ اسی کے حضور ملائکہ اور جبریل امین پیش ہوتے ہیں۔ جبریل امین کا اس لیے الگ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ وہ ملائکہ کا سردار اور سب سے مقرب فرشتہ ہے، وہی اپنے رب کا پیغام انبیائے کرام (علیہ السلام) تک لاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں ” ذِی الْمَعَارِجِ“ کا لفظ استعمال فرما کر کفار کی جلد بازی کا جواب دیا ہے کہ بے شک کفار اور نافرمان لوگ آپ (ﷺ) سے بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے بلند وبالا ہے اسی طرح ہی بڑے حوصلے والا اور اعلیٰ ظرف ہے وہ کسی کی نافرمانی اور جلدبازی کی وجہ سے اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کے درمیان اس دن عدل وانصاف پر مبنی فیصلے فرمائے گا جس دن کی طوالت پچاس ہزار سال پر مشتمل ہوگی۔ اس دن کفار اور نافرمانوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا۔ ” یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں اللہ اپنے وعدے کیخلاف ہرگز نہیں کرے گا مگر آپ کے رب کے ہاں ایک دن تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔“ (الحج :47) حدیث شریف میں بھی اس دن کی طوالت پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : چاندی سونے کا جو مالک ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا اس چاندی، سونے کی تختیاں بنائی جائیں گی۔ انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر مال دار کی پیشانی اور کروٹیں اس سے داغی جائیں گی جب اس کی پیٹھ پر تختیاں ٹھنڈی ہوجائیں گی تو پھر گرم کی جائیں گی پچاس ہزار سال کے دن میں اس کو یہی عذاب ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے بارے میں جنت اور جہنم کا فیصلہ ہوجائے۔۔“ (رواہ مسلم : باب اثم مانع الزکاۃ)