سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ
کسی طلب کرنے والے نے اس عذاب کا مطالبہ کیا جو واقع ہو کے رہے گا
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : کفار بار بار نبی (ﷺ) سے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے جس پر انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو، وہ نازل ہوگا تو اسے ٹالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ المعارج کی ابتدا اس بات سے ہورہی ہے کہ ایک سوال کرنے والے نے سوال ہے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک وارد کیوں نہیں ہوا ؟ ” سَاَلَ سَآئِلٌ“ کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ بظاہر تو یہ الفاظ سوال کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اہل عرب ان الفاظ کو کسی چیز کا مطالبہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس معنٰی میں اس لیے گنجائش ہے کہ اکثر اوقات سائل اپنے سوال میں کسی نہ کسی بات کا مطالبہ ہی کیا کرتا ہے۔ حقیقت میں دونوں مفاہیم کا مقصد ایک ہے کہ کفار نبی معظم (ﷺ) سے بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کے بارے میں ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے وہ اب تک نازل کیوں نہیں ہوا۔ اہل مکہ اس معاملے میں اس قدر بے باک اور دلیر ہوچکے تھے کہ ایک دن انہوں نے کعبۃ اللہ کاغلاف پکڑ کر مطالبہ کیا کہ الٰہی اگر یہ رسول اور قرآن برحق ہے تو پھر ہم پر پتھروں کی بارش برسا یا ہمیں عذاب الیم میں مبتلا کردے۔ اس مطالبے کے جواب میں یہ ارشاد ہواکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اس لائق ہو کہ تمہیں تہس نہس کردیا جائے لیکن ہم اس لیے تم پر عذاب نازل نہیں کررہے کیونکہ تم میں رسول کی ذات اور استغفار کرنے والے مسلمان موجود ہیں۔ ( الانفال : 32، 33) لہٰذا اہل مکہ کو بتلایا گیا ہے کہ جب عذاب کا فیصلہ صادر ہوگا تو اس کا انکار اور مطالبہ کرنے والے کسی صورت بھی اسے ٹال نہیں سکیں گے۔ انکار کرنے والے ہر صورت اس میں مبتلا اور گرفتار ہو کر رہیں گے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جب بھی کسی قوم پر عذاب نازل ہوا تو پھر اسے بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ قوم نوح، ثمود، عاد، آل فرعون اور دیگر اقوام کا انجام عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے کھلی دلیل ہے جس پر انہیں غور کرنا چاہیے۔ اگلی آیات کے حوالے سے یہاں عذاب کا دوسرا معنٰی قیامت ہے۔ اس لیے کہ عذاب کے ذکر کے بعد متصل قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( اللہ اعلم!)