بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ المعارج کا تعارف : المعارج کا نام اس کی تیسری آیت سے لیا گیا ہے یہ مکی سورت ہے اس کی چوالیس آیات ہیں جنہیں دو رکوع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سورت کی ابتداء اس بات سے کی جا رہی ہے کہ کفار مکہ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں لہٰذا ان پر عذاب ہر صورت نازل ہو کر رہے گا اور اس کا انکار کرنے والے اسے روک نہیں سکیں گے۔ اے رسول (ﷺ) اگر یہ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں تو آپ (ﷺ) ان کے مقابلے میں پورے تحمل کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کریں۔ یہ لوگ عذاب کو دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب جانتے ہیں۔ کفار عذاب کے ساتھ اس بات کا بھی مطالبہ کرتے تھے کہ جس قیامت سے ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے وہ کیوں برپا نہیں ہوتی؟ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ قیامت کو دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب سمجھتے ہیں۔ جب یہ دن آئے گا تو آسمان پگلی ہوئی چاندی کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگ دار ڈھنکی ہوئی روئی کی طرح اڑنے لگیں گے۔ اس دن مجرموں کی یہ حالت ہوگی کہ کوئی اپنے جگری دوست کی مدد نہیں کرسکے گا حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور پہچان رہے ہوں گے۔ مجرم اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے خاندان کو جو دنیا میں اس کی حمایت کیا کرتے تھے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے وہ سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوگا۔ تاکہ عذاب سے نجات پا جائے لیکن وہ بھڑکتی ہوئی آگ سے نہیں بچ سکے گا۔ جو مجرم کے گوشت پوست کو چاٹ جائے گی جہنم کی آگ ہر اس شخص کا پیچھا کرے گی جس نے حق بات سے منہ موڑا اور ناجائز طریقے سے مال جمع کیا۔ اس سے وہ لوگ بچا لیے جائیں گے جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرتے تھے، قیامت کے برپا ہونے کی تصدیق کرتے تھے اور اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے تھے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے تھے اور امانتوں کا خیال رکھتے تھے اور شہادت حق پر قائم رہتے تھے انہیں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ جنت میں رکھا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں مگر پھر بھی چاہتے ہیں کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے انہیں بتائیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا جس قیامت کا مطالبہ کرتے ہیں اس دن ان کی حالت یہ ہوگی کہ ان آنکھیں پھٹی ہوئی ہوں گی اور ان کے چہروں پر ذلّت چھائی ہوئی ہوگی اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ یہ وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔