سورة النسآء - آیت 46

مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب کے کلمات کو ان کے موقع و محل [٧٧۔ ١] سے پھیر دیتے ہیں۔ اور اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا اور اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ اور راعِنَا اس کے بجائے اگر وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا اور اِسْمَعْ اور اُنْظُرْنَا [٧٨] کہتے تو یہ ان کے لیے بہتر اور بہت درست بات تھی مگر اللہ نے تو ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی ہے۔ اب ان میں سے ماسوائے چند لوگوں کے ایمان لانے کے نہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 46 سے 47) ربط کلام : اس آیت میں یہودیوں پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ان کی بد ترین عادتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس شخص یا گروہ میں یہ عادتیں پائی جائیں وہ معاشرے کے لیے ناسور، مذہب کا بدترین دشمن اور لوگوں کی ہدایت میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بجائے اس کی لعنت کے سزاوار ہوتے ہیں۔ ان سے چھٹکارا پائے بغیر معاشرہ جرائم سے پاک نہیں ہوسکتا۔ اس لیے رسول اللہ (ﷺ) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا اور اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات میں ان پر لعنت اور پھٹکار کی۔ جن عادتوں کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی وہ یہ ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرنا۔ 2۔ سچ سننے اور سمجھنے کے باوجود اس کا انکار کرنا۔ 3۔ خدا کے رسول کو بہرہ ہونے کی بد دعا دینا اور آپ کو چرواہا کہہ کر گستاخی کا ارتکاب کرنا۔ 4۔ دین اسلام میں عیب نکالنا۔ ان بھاری جرائم کے باوجود انہیں نہایت ہی دلرُباانداز میں سمجھایا گیا ہے کہ کاش یہ لوگ سننے کے بعد سمع و اطاعت کا مظاہرہ کرتے اور رسول کریم (ﷺ) کے مزید ارشادات سننے کے لیے ﴿ راعنا﴾ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے نہایت ادب کے ساتھ عرض کرتے کہ اے رسول محترم! ہماری طرف توجہ فرمائیں۔ اس لفظ کی تشریح پہلے صفحہ 174میں گزر چکی ہے۔ ایسا کرنا اور کہنا ان کے لیے نہایت ہی بہتر اور درست ثابت ہوتا لیکن ان کی بری نیت اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر پھٹکار کی۔ اب ان میں نہایت ہی تھوڑے ہوں گے جو ہدایت پائیں گے۔ اس کے باوجود ایک دفعہ پھر قرآن مجید نے یہ بات کہہ کر انہیں ایمان لانے کی دعوت دی ہے کہ یہ کتاب تمہارے انبیاء کی تصدیق اور تورات و انجیل کی تائید کرتی ہے لہٰذا تمہیں اس پر ایمان لانا چاہیے۔ اس برے وقت سے پہلے جب تمہارے چہروں کو مسخ کر کے گدیوں کے بل الٹا کردیا جائے یا تم پر ہفتہ والوں کی طرح لعنت کی جائے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ﴿ اَصْحَاب السَّبْتِ﴾ سے مراد یہودیوں کے وہ آباء و اجداد ہیں جنہیں ہفتہ کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے بجائے حیلہ سازی سے کام لیتے ہوئے دریا کے کنارے تالاب تیار کیے اس میں مچھلیاں خود بخود آجاتیں۔ ہفتہ کی بجائے انہیں اتوار کے روز پکڑ لیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار ہوئی اور ان کو ذلیل بندر بنا دیا گیا۔ جس کی تفصیل پہلے اور چھٹے پارے میں دیکھنی چاہیے۔ مسائل : 1۔ یہودی اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں۔ 2۔ یہودی نبی کریم (ﷺ) کا نام بگاڑکر لیتے ہیں۔ 3۔ یہودی دین اسلام میں عیب جوئی کرتے ہیں۔ 4۔ یہودیوں پر ان کے کفر اور کلام اللہ میں تحریف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی ہے۔ 5۔ اہل کتاب کو عذاب الٰہی سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے۔ 6۔ ہفتہ کے دن زیادتی کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بر سی ہے۔