فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ
پھر جب صور میں ایک دفعہ پھونک ماری جائے گی
فہم القرآن: (آیت 13 سے 16) ربط کلام : قوم ثمود، قوم عاد اور آل فرعون کی ذلّت اور انجام ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ جو لوگ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات اور نصائح توجہ کے ساتھ سنتے ہیں انہیں اس دن سے پہلے نصیحت حاصل کرنی چاہیے جس دن ایک ہی دفعہ صور پھونکنے سے ہر چیز الٹ پلٹ ہوجائے گی اور اس دن مجرموں کو زنجیروں کے ساتھ جکڑ دیا جائے گا۔ اس سورت کی ابتدا اس فرمان سے ہوئی ہے کہ قیامت ہر صورت واقع ہو کر رہے گی اور اس کے لیے ” اَلْحَاقَّۃُ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا ایک معنٰی یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردینے والی۔ اب اسی کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی جاری ہے۔ اسرافیل کے صورپھونکنے کی وجہ سے قیامت واقع ہوگی۔ جب اسرافیل پہلی مرتبہ صورپھونکے گا تو زمین میں اس قدر زلزلے واقع ہوں گے کہ پہاڑ آپس میں ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ یہاں قیامت کو ” اَلْحَاقَّۃُ“ کہا گیا ہے اور یہ ہر صورت واقع ہو کررہے گی۔ آسمان کے بندھن ٹوٹ جائیں گے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گرپڑے گا۔ دوسرے مقام پر قیامت کے پہلے مرحلے کے بارے میں یوں بیان کیا ہے۔ ” آپ (ﷺ) سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر ” اللہ“ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا قیامت آسمانوں اور زمین پربھاری واقع ہوگی اور تم پر اچانک ہی آئے گی۔“ (الاعراف :187) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے۔ اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو پھینک دے گی ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور دیکھنے والے دیکھیں کہ لوگ مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اس دن اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔“ (الحج : 1، 2) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) (رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (ﷺ) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرسب کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے لیکن اس وقت ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، حوض پر پہنچنے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل: 1۔ اسرافیل جب پہلا صورپھونکے گا تو زمین میں زلزلے ہوں گے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ 2۔ آسمان کے بندھن ڈھیلے ہوجائیں گے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑے گا۔ 3۔ قیامت ہر صورت واقع ہوگی اور پہاڑریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور آسمان پھٹ جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: اسرافیل کے پہلے صور کے بعد ہونے والے واقعات کی ایک جھلک : 1۔ پہلے نفخہ سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے، اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزّمر :68) 2۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس :53) 3۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النبا :18) 4۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے۔ (طہٰ:102) (النّمل :87)