أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ
یا آپ ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں کہ وہ تاوان (کے بوجھ) سے دبے [٢٢] جارہے ہیں
فہم القرآن: (آیت 46 سے 50) ربط کلام : کفار اور مشرکین کو انتباہ کرنے کے بعد نبی (ﷺ) کو تسلی رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) شب وروز اس فکر اور کوشش میں تھے کہ کفار اور مشرکین اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں اور اپنے آپ کو سیدھے راستے پر گامزن کرلیں لیکن وہ لوگ دن بدن مخالفت اور گمراہی میں آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ انہیں سمجھانے اور نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ کیا آپ ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں جس وجہ سے وہ آپ کی ذات اور دعوت کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہیں یا پھر ان کے پاس غیب کا علم ہے جس سے یہ اپنے مستقبل کے بارے میں آگاہ ہیں؟ ان سے الجھنے کی بجائے آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیں۔ جب اس نے اپنے رب کو آواز دی تو وہ بہت غمگین تھا اگر اس کے رب کی مہربانی اس کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پڑا رہتا۔ اس کے رب نے اسے پسند فرمایا اور اسے صالح بندوں میں شامل کرلیا۔ تفصیل کے لیے سورۃ الانبیاء آیت 87تا 88کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں! خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) عرصہ دراز تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے لیکن ناہنجارقوم نے ان کی دعوت تسلیم کرنے کی بجائے ان کی مخالفت میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا۔ جس پریونس (علیہ السلام) نے انہیں انتباہ کیا کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو فلاں دن تم پر عذاب نازل ہوگا۔ جب اس دن عذاب نازل نہ ہوا تو قوم نے یونس (علیہ السلام) کو استہزاء کا نشانہ بنایا جس سے پریشان ہو کر یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا اِ ذن آنے سے پہلے ہی قوم کو چھوڑ کر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے دریا عبور کرنے کے لیے بیڑے پر سوار ہوئے اس دوران بیڑا ڈگمگانے لگا۔ ملّاح کے کہنے پر یونس (علیہ السلام) دریا میں اتر گئے جونہی دریا میں اترے تو مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ اس المناک صورتحال میں یونس (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ان الفاظ میں معافی مانگی اور اس کی مدد طلب کی۔ ” اور مچھلی والے کو ہم نے نوازا۔ یاد کرو جب وہ ناراض ہو کر چلا گیا تھا اور سمجھا کہ ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے آخرکار اس نے تاریکیوں میں پکارا کہ تو پاک ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں بے شک میں نے ظلم کیا ہے۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔“ (الانبیاء : 87، 88) اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا اور ان کی فریاد قبول کرتے ہوئے انہیں برگزیدہ فرمایا اور اپنے بندوں میں شامل رکھا۔ بندوں سے مراد انبیائے کرام (علیہ السلام) کی جماعت ہے۔ یونس (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! حالات جس قدر بھی غمناک اور خطرناک ہوجائیں۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو عقیدہ توحید اور دعوت حق پر قائم رہنا چاہیے۔ یادرکھیں! کہ اللہ تعالیٰ بالآخر اپنے بندوں کی دعاؤں کو مستجاب کرتا ہے۔ ” مَکْظُوْمٌ“ کا معنٰی ہے غم سے بھرا ہوا، مصیبت زدہ اور غصے سے بھرپور۔ مذموم کا معنٰی ہے ملامت کیا ہوا۔ مسائل: 1۔ نبی معظم (ﷺ) اپنے بیگانوں پر کسی قسم کی بوجھ نہ تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی فریاد کو قبول فرمایا اور انہیں انبیائے کرام (علیہ السلام) کی جماعت شامل رکھا۔ 3۔ مومن کو ہر حال میں صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن : صبر کی فضیلت اور اس کا صلہ : 1۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف :35) 2۔ نبی (ﷺ) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 3۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :153) 4۔ صبر کا انجام بہتر ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد :24) 7۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان :75)