يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور انہیں سجدہ کرنے کو بلایا جائے گا تو یہ سجدہ [١٩] نہ کرسکیں گے
فہم القرآن: (آیت 42 سے 45) ربط کلام : جو لوگ بدعقیدہ اور برا کردار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو جنت کا مالک اور مسلمانوں سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ محشر کے میدان میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کے سامنے کافر اور مومن، مشرک اور موحِّد، بد اور نیک کے درمیان فرق ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی سے نور کے پردے ہٹائیں گے۔ اللہ تعالیٰ جونہی اپنی پنڈلی کو جلوہ گر کریں گے تو موحّد نمازی اللہ کے حضور سربسجود ہوجائیں گے۔ موحّد نماز یوں کو سربسجود ہوتے دیکھ کر کافر، مشرک، منافق اور بے نماز بھی سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ان کی کمریں پتھر کی طرح سخت ہوجائیں گی اور وہ رب ذوالجلال کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکیں گے۔ گویا کہ تابعداروں اور نافرمانوں کے درمیان یہ پہلا اقدام ہوگا جس سے واضح کیا جائے گا کہ تابع دار اور مجرم برابر نہیں ہوسکتے، اس دن مجرموں کی آنکھیں شرم کے مارے جھکی ہوئی ہوں گی اور ان کے چہروں پر ذلّت چھاجائے گی یہ اس لیے ہوگا کہ جب دنیا میں انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا تو وہ استطاعت رکھنے کے باوجود اپنے رب کو سجدہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ سجدہ کرنے سے مراد نماز پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرنا ہے۔ جو لوگ حقیقت واضح ہوجانے کے باوجود اسے قولاً یا عملاً جھٹلاتے ہیں ہم انہیں تدریجاً ایسے انداز میں پکڑیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت دیئے جاتا ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میری گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ حقیقت جھٹلانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ” فَذَرْنِیْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مجھے چھوڑ دیجیے ! یہ انتہا درجے کی دھمکی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دھمکی دینے والی شخصیت کسی کی پابند یا کسی وجہ سے مجبور ہے اس لیے وہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دیجیے ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اس مجرم کو مہلت دے رہا ہوں اگر یہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا تو عنقریب اسے اس طرح پکڑا جائے گا کہ اسے چھڑانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس دھمکی کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ میری تدبیر یعنی گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ ان آیات میں ﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ﴾(جس دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دیں گے۔) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان الفاظ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین نے تاویل کی ہے۔ یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے نبی نے اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اِذَا کَانَ فَیَکْشِفُ عَنْ سَاقٍ فَلاَ یَبْقٰی مَنْ کَانَ یَسْجُدُ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِہٖ اِلَّا اَذِنَ اللّٰہٗ لَہُ بالسُّجُوْدِ وَلَا یَبْقٰی مَنْ کَانَ یَسْجُدُ اتِّقَاءً وَرِیَاءً اِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ ظَھْرَہٗ طَبْقَۃً وَّاحِدَۃً کُلَّمَا اَرَادَاَنْ یَّسْجُدَ خَرَّ عَلٰی قَفَاہٗ) (رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ طَرِیق الرُّؤْیَۃِ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پنڈلی کھولیں گے تو اس موقع پر ہر اس شخص کو سجدہ کرنے کی توفیق مل جائے گی جو اخلاص کے ساتھ سجدہ کرتا تھا جوکسی کے ڈر سے یا دکھاوے کی خاطر سجدہ کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو تختہ بنا دیں گے، جب وہ سجدہ کرنے کا ارادہ کرے گا تو اپنی گدی کے بل گر پڑے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی جلوہ نما کریں گے تو مواحد نمازی سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ 2۔ کافر، مشرک، منافق اور بے نماز سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں طاقت رکھنے کے باوجود ” اللہ“ کے سامنے نہیں جھکتے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو تدریجاً بھی پکڑا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے کا حکم : 1۔ نماز قائم کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ (الحج :41) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم :37) (العنکبوت :45) 3۔ حضرت موسیٰ (ﷺ) کو نماز کا حکم۔ (یونس :87) 4۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نماز۔ (مریم :31) (البقرۃ:83) (البینۃ:5)