فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ
عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے
فہم القرآن: (آیت 5 سے 9) ربط کلام : آپ (ﷺ) کو یوانہ کہنے والوں کا انجام کفار قرآن مجید اور دعوت توحید کی مخالفت کی وجہ سے آپ (ﷺ) کو مجنون کہنے کے ساتھ یہ الزام بھی دیتے تھے کہ آپ راہ راست سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ آپ جو انہیں دعوت دیتے تھے وہ انہوں نے پہلے نہیں سنی تھی۔ وہ اس دعوت کو اپنی مذہبی اور معاشرتی روایات کے خلاف سمجھتے تھے اس لیے پراپیگنڈہ کرتے کہ آپ صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں۔ سورۃ یٰس کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی ذات اور قرآن کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ آپ (ﷺ) صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ یہاں یہ ارشاد فرمایا کہ آپ کا رب اچھی طرح جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے اور کون سیدھے راستے پر گامزن ہے۔ کفار کی مخالفت اور الزام بازی کے باوجود نبی معظم (ﷺ) نے پوری جرأت کے ساتھ دعوت کے کام کو جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مکی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی وہ حالات پیدا فرمادیئے کہ اہل مکہ سوچنے اور یقین کرنے پر مجبور ہوگئے کہ نبی کی دعوت جلد غلبہ پاجائے گی۔ اس لیے انہوں نے اپنے رویے کو تبدیل کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، جس کے لیے آپ کے چچا ابوطالب کے پاس حاضر ہو کر درخواست کرتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کے ساتھ ہماری مفاہمت کروائیں۔ جس کے لیے کچھ ہم نرم ہوتے ہیں اور کچھ اسے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ اس کی تفصیل سورۃ الکافرون میں دیکھنی چاہیے۔ کفار کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے آپ (ﷺ) کو حکم ہوا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ وہ نرم ہوجاتے ہیں۔ آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ جھوٹے لوگوں کی بات کو ہرگز نہیں ماننا اور نہ ہی ان کی قسموں پر یقین کرنا چاہیے۔ (أَنّ قُرَیْشًا حینَ قَالُوا لِأَبِی طَالِبٍ ہَذِہِ الْمَقَالَۃَ بَعَثَ إلَی رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ لَہُ یَا ابْنَ أَخِی إنّ قَوْمَک قَدْ جَاءُ ونِی فَقَالُوا لِی کَذَا وَکَذَا لِلّذِی کَانُوا قالُوا لَہُ فَأَبْقِ عَلَیّ وَعَلَی نَفْسِک وَلَا تُحَمّلْنِی مِنْ الْأَمْرِ مَا لَا أُطِیقُ فَظَنّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَنّہُ قَدْ بَدَا لِعَمّہِ فیہِ أَنّہُ خَاذِلُہُ وَمُسْلِمُہُ وَأَنّہُ قَدْ ضَعُفَ عَنْ نُصْرَتِہِ وَالْقِیَامِ مَعَہُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَا عَمّ وَاللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشّمْسَ فِی یَمِینِی وَالْقَمَرَ فِی یَسَارِی عَلَی أَنْ أَتْرُکَ ہَذَا الْأَمْرَ حَتّی یُظْہِرَہُ اللہُ أَوْ أَہْلِکَ فیہِ مَا تَرَکْتہ قالَ ثُمّ اسْتَعْبَرَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَبَکَی ثُمّ قَامَ فَلَمّا وَلّی نَادَاہُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ أَقْبِلْ یَا ابْنَ أَخِی، قَالَ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ اذْہَبْ یَا ابْنَ أَخِی، فَقُلْ مَا أَحْبَبْت، فَوَاَللہِ لَا أُسْلِمْک لِشَیْءِ أَبَدًا) (سیرت ابن ہشام : باب مشی قریش الی ابی طالب ) ” جب قریش آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے انہوں نے آپ (ﷺ) کے بارے میں برا بھلا کہا تو آپ کے چچا ابو طالب نے آپ سے کہا کہ اے بھتیجے تیری قوم میرے پاس آئی تھی اور انہوں نے مجھے تیرے بارے بہت برا ہے کہ میں تمھیں اس بات سے روکتاہوں جو مکہ والوں کو کہتا ہے۔ تو اپنے آپ پر رحم کر اور مجھ پر بھی رحم کر اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی میں طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے خیال کیا کہ آپ کا چچا آپ کو چھوڑ کر الگ ہونا چاہتا ہے اور وہ اس بات سے عاجز آ گیا ہے کہ وہ آپ کی مدد کرئے یا آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے چچا کو فرمایا اے چچا اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس دین کو چھوڑ دوں پھر بھی میں اس دین کو نہیں چھوڑسکتا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کردیں یا میں قتل کردیا جاؤں۔ یہ کہتے ہی آپ (ﷺ) کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر آپ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور واپس جانے لگے تو ابوطالب نے کہا کہ اے بھتیجے قریب آؤ آپ (ﷺ) قریب ہوے تو آپ (ﷺ) کے چچا نے کہا جاؤ جو بات تمھیں پسند ہے اس کا اعلان کرو اللہ کی قسم میں تمھیں کسی بات سے منع نہیں کروں گا۔“ مسائل: 1۔ اہل مکہ نبی (ﷺ) کو مجنون کہتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ اور گمراہ لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ 3۔ کفرو شرک کے ساتھ دین اور ایمان میں مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ 4۔ جھوٹے لوگوں کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: حق اور باطل، نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے : 1۔ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، باطل کا کام ہی بھاگ جانا ہے۔ (بنی اسرائیل :81) (الحشر :20) 2۔ اللہ تعالیٰ باطل کو مٹاتا اور حق کو واضح کرتا ہے۔ (الشوریٰ :24) 3۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہو سکتے۔ (فاطر :20) 4۔ اللہ تعالیٰ حق کو حق اور باطل کو باطل کردیتا ہے اگرچہ مجرم اسے ناپسند سمجھیں۔ (الانفال :8) (السجدۃ:18)