مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ
کہ آپ اللہ کے فضل [٣] سے دیوانہ نہیں
فہم القرآن: (آیت 2 سے 4) ربط کلام : قلم اور اس کے لکھنے والوں کی عظمت کا ذکر فرما کر کفار کے بدترین الزام کی تردید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو صورت اور سیرت کے اعتبار سے سب سے ممتاز پیدا فرمایا تھا۔ اسی سورت کی آیت 4میں آپ کے عظیم اخلاق کی تعریف فرمائی ہے۔ آپ (ﷺ) کی صورت و سیرت اور حسن اخلاق کو آپ کے بدترین دشمن بھی جانتے اور مانتے تھے مگر قرآن بالخصوص دعوت توحید کی وجہ سے لوگ نہ صرف آپ کے مخالف ہوئے بلکہ ہرقسم کی سچائی کا انکار کرتے ہوئے آپ کو مجنون کہتے تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ دیوانہ اس قسم کی حرکات اور باتیں نہیں کرتا لیکن پھر بھی آپ کو مجنون قراردیتے تھے۔ یہ آپ کی ذات پر بہت بڑا اور بدترین الزام تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ اپنے رب کے فضل وکرم سے مجنون نہیں ہیں۔ آپ کے لیے بیش بہا اجر ہے جو کبھی کم نہیں ہوگا۔ جسے آپ بھی دیکھیں گے اور آپ کے مخالف بھی دیکھ لیں گے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ دیوانہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا اجر دے گا جو اعلیٰ اور سب سے زیادہ ہوگا۔ کفار لوگوں کے سامنے آپ (ﷺ) کو کبھی مجنون کہتے اور کبھی شاعر کہتے اور اپنے ساتھیوں کو دلاسہ دیتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنے نظریات پر قائم رہیے ! یہ عنقریب حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال میں آپ (ﷺ) کو اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو ان کی یا وہ گوئی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور دیوانہ نہیں ہیں۔ پاگل تو وہ ہیں جو بیک وقت متضاد باتیں کررہے ہیں۔ ان کے پاگل پن کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف آپ کو کاہن کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو مجنون کہتے ہیں۔ حالانکہ مجنون اور کاہن کے درمیان زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مجنون شخص اَب نارمل (ABNORMAL) اور حواس باختہ ہوتا ہے۔ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ اپنے منہ سے کیا کہہ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے لباس کا بھی خیال نہیں رکھ سکتا۔ مجنون کے مقابلے میں کاہن شخص اپنے فن میں ماہر اور چالاک ہوتا ہے وہ لوگوں کو پھنسانے اور بھلانے کے لیے ایسے الفاظ اور اندازاختیار کرتا ہے کہ عقل مند اور جہاندیدہ لوگ بھی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ مجنون کو اپنے تن کی ہوش نہیں ہوتی، کاہن باتوں باتوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ جہاں تک شاعر کا معاملہ ہے شاعر کے کلام میں نہ صرف مبالغہ پایا جاتا ہے بلکہ اس کے کلام میں تضاد بیانی بھی ہوا کرتی ہے۔ شاعروں کی غالب ترین اکثریت بے عمل ہوتی ہے وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے، ان کے مقابلے میں نبی (ﷺ) پوری دنیا کے لیے اسوہ حسنہ بنائے گئے ہیں، نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائزہونے سے پہلے بھی آپ اعلیٰ کردار اور عظیم اخلاق کے پیکر تھے اور اہل مکہ آپ کو عظیم دانشور سمجھتے تھے اکثر شاعر عاشق مزاج ہوتے ہیں نبی (ﷺ) نے زندگی بھر کسی غیرمحرم عورت کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شاعر کا کلام زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتانبی معظم (ﷺ) جو کلام پیش کررہے تھے اس کی رہتی دنیا تک گارنٹی دی گئی ہے۔ شاعراپنا کلام پیش کرکے لوگوں سے مالی یا اخلاقی داد وصول کرتے ہیں۔ نبی (ﷺ) ان باتوں سے مبرّہ اور ارفع تھے۔ آپ نے زندگی بھر اپنے خطاب میں کبھی شعر نہیں پڑھا اور نہ ہی آپ کی شان اور مقام کے لائق تھا۔ (یٰسٓ:69) یہاں تک اہل مکہ کی اس بات کا تعلق ہے کہ نبی (ﷺ) کا نام اور کام بہت جلد حوادث زمانہ کا شکار ہوجائے گا۔ اس بات کا انہیں آپ (ﷺ) کی زبان اطہر سے یوں چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی انتظار کرو میں بھی انتظار کرتاہوں۔ زمانہ گواہ ہے کہ آپ (ﷺ) کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے مٹ گئے لیکن آپ کا نام اور کام ہر دور میں زندہ رہا اور رہے گا۔ اس لیے فرمایا کہ کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی باتیں سکھاتی ہیں یا حقیقت میں یہ لوگ باغی اور شرارتی ہیں گویا کہ آپ (ﷺ) کے مخالف بے عقل بھی تھے، باغی اور شرارتی بھی۔ بے عقل اور شرارتی لوگ اپنے کام میں حقیقی کامیابی نہیں پایا کرتے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ خَدَمْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) عَشْرَ سِنِیْنَ فَمَا قَالَ لِیْ اُفٍّ وَّلَا لِمَ صَنَعْتَ وَلَا اَلَّا صَنَعْتَ) (رواہ البخاری : بَابٌ حُسْنِ الْخُلُقِ وَالسَّخَاءِ وَمَا یُکْرَہُ مِنَ الْبُخْلِض) حضرت انس (رض) نے بتایا کہ میں نے نبی رحمت (ﷺ) کی دس سال خدمت کی۔ آپ نے مجھے کبھی اف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ یا وہ نہیں کیا؟“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ اَمْشِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَجْرَانِیٌّ غَلِیْظُ الْحَاشِیَۃِ فَاَدْرَکَہٗ اَعْرَابِیٌّ فَجَبَذَہٗ بِرِدَائِہٖ جَبْذَۃً شَدِیْدَۃً وَرَجَعَ نَبِیُّ اللّٰہِ (ﷺ) فِیْ نَحْرِ الْاَعْرَابِیِّ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی صَفْحَۃِ عَاتِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَدْ اَثَّرَتْ بِھَا حَاشِیَۃُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّۃِ جَبْذَتِہٖ ثُمَّ قَالَ یَامُحَمَّدُ ! مُرْلِیْ مِنْ مَّال اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ فَالْتَفَتَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) ثُمَّ ضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَ لَہٗ بِعَطَاءٍ) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُعْطِی الْمُؤَلَّفَۃَ قُلُوبُہُمْ وَغَیْرَہُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِہِ) ” حضرت انس (رض) ہی سے روایت ہے کہ میں رسول معظم (ﷺ) کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ پر گہری حاشیہ دار نجرانی چادر تھی۔ ایک دیہاتی سامنے آیا اور اس نے بڑے زور سے آپ کی چادر کھینچی۔ نبی رحمت (ﷺ) اس کے سینے کی طرف جھک گئے۔ یہاں تک کہ میں نے رسول کریم (ﷺ) کی گردن مبارک کے ایک طرف، چادر کے کنارے کو زور سے کھینچنے کی رگڑ کا نشان دیکھا، دیہاتی نے کہا، اے محمد (ﷺ) ! آپ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے مجھے بھی کچھ دیں۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا مسکرائے اور اس کو کچھ دینے کا حکم دیا۔“ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (ﷺ) ) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عمرٍ قَالَ قَالَ رسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا) (رواہ البخاری : باب صفۃ ا لنبی (ﷺ) ) ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا۔ تم میں سے وہ بہتر ہیں‘ جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہیں۔“ مسائل: 1۔ نبی محترم (ﷺ) مجنون نہیں تھے بلکہ آدم (علیہ السلام) کی ساری اولاد میں سب سے اعلیٰ اخلاق کے مالک اور سب سے بڑھ کر دانشور تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو صورت وسیرت اور اخلاق کے حوالے سے بے مثال بنایا تھا۔ 3۔ کفار نے آپ (ﷺ) کی مخالفت اور گستاخیاں کرنے کی وجہ سے دنیا میں برا انجام دیکھا اور قیامت کے دن بھی برے اور بڑے عذاب کا سامنا کرنا کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو ہر حوالے سے افضل اور عظیم تر بنایا : 1۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ:30) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء :125) 3۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص :35) 4۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص :20) 5۔ یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرمایا۔ (یوسف :83) 6۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف :31) 7۔ نبی مکرم (ﷺ) کو رحمۃ للعالمین وخاتم النبیّین اور خلق عظیم کا مالک بنایا۔ (الانبیاء : 107، الاحزاب :40)