فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ
پھر جب وہ اس (عذاب) کو نزدیک دیکھ لیں گے تو ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے [٣٠] اور انہیں کہا جائے گا کہ یہی وہ چیز ہے جو تم مانگا کرتے تھے
فہم القرآن: (آیت 27 سے 29) ربط کلام : ان آیات میں کفار کو بتلائی جانے والی چوتھی اور پانچویں حقیقت۔ اس سے پہلے ” قُلْ“ کا لفظ استعمال فرما کر نبی کو حکم ہوا کہ کفار کو یہ بتلا یا جائے کہ تمہیں ” اللہ“ ہی نے پیدا کیا اور اسی نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے ہیں، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور وہی تمہیں اپنے حضور دوبارہ اکٹھا کرے گا اور وہی جانتا ہے کہ قیامت کب برپا ہوگی۔ اب حکم ہوا کہ اے نبی (ﷺ) ! انہیں بتلائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کرے یا ہم پر مہربانی فرمائے تو کافرو! تم بتلاؤ کہ تمہیں عذاب الیم سے کون بچائے گا؟ انہیں یہ بھی بتلائیں کہ جو ہلاک کرنے اور بچانے والا ہے اسی الرحمن پر ہمارا بھروسہ اور ایمان ہے، وقت آئے گا کہ تمہیں پتا چل جائے گا کہ کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے اور کون ہدایت کے راستے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہلاک کرنے اور مہربانی فرمانے کا ذکر فرما کر کفار کو یہ حقیقت بتلائی گئی ہے کہ موت اور زندگی، نفع اور نقصان صرف ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے لہٰذا تمہاری مخالفت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، البتہ تم یاد رکھو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ تم کھلی گمراہی میں مبتلا ہو۔ ﴿یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ﴾ (آل عمران :106) ” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ، کالے چہروں والوں سے کہا جائے گا کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ اب عذاب چکھو کیونکہ تم انکار کرتے تھے۔“ ” نہایت مہربان رب کی طرف سے جو زمینوں اور آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ جس دن جبریل اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے کوئی بات نہیں کر پائے گا سوائے اس کے جسے الرّحمن اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے وہ دن برحق ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کرلے۔ ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔“ (عبس : 37تا42) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کسی پر رحم فرمائے یا اسے ہلاک کرے اس کے کام میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ 2۔ کفار جس قدر چاہیں مسلمانوں کی مخالفت کرلیں بالآخر انہیں عذاب الیم میں مبتلا ہونا ہے۔ 3۔ مسلمان کو ہر حال میں ” اللہ“ پر بھروسہ کرنا چاہیے جو سب سے بڑا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ جس پر گرفت فرمائے اسے دنیا اور آخرت میں کوئی بچانے والا نہیں : 1۔ ” اللہ“ کا عذاب برحق ہے اور تم اس کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس :53) 2 کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (یونس :27) 3۔ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ (ہود :43) 4۔ اس دن وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ” اللہ“ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (المومن :33) 5۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس تکلیف سے بچا سکے۔ (الاحزاب :17) 6۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج :18)