الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ
اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے [٦]۔ تم رحمن کی پیدا کردہ چیزوں میں کوئی بے ربطی [٧] نہ دیکھو گے۔ ذرا دوبارہ (آسمان کی طرف) دیکھو، کیا تمہیں اس میں کوئی خلل نظر آتا ہے؟
فہم القرآن: (آیت 3 سے 4) ربط کلام : جس بابرکت ذات کے ہاتھ میں کائنات کی بادشاہی ہے اور جس نے موت و حیات کو پیدا کیا ہے اسی نے اوپر تلے سات آسمان بنائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی تخلیق کا کئی مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ ان کے لیے کبھی ” جَعَلَ“ کا لفظ استعمال کیا اور کبھی ” خَلَقَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں الفاظ کا ایک ہی معنٰی بنتا ہے۔ لیکن موقع محل کے مطابق ان کے استعمال میں بڑی لطافت پائی جاتی ہے۔ کبھی زمین و آسمانوں کی تخلیق اور بناوٹ کا بیک وقت ذکر کیا اور کبھی دونوں کا الگ الگ بیان کیا ہے۔ یہاں صرف آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرمایا اور ان کے بارے میں ” طَبَقًا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی تہہ بہ تہہ اور اوپر نیچے کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ اے دیکھنے والے ! تو الرّحمن کی تخلیق میں کسی قسم کا نقص نہیں دیکھے گا، پھر آنکھ اٹھا کردیکھ ! کیا آسمان میں کسی قسم کا شگاف، جھکاؤ اور خلل نظر آتا ہے ؟ اگر تجھے یقین نہیں آتا تو بار بار دیکھ! تو آسمان میں کوئی نقص نہیں دیکھ پائے گا البتہ تیری نظر تھک کر ضرور پلٹ آئے گی۔ (عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَتِ الْیَہُودُ خَلَقَ اللّٰہ تبارک وتعالی السماوات والأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَاسْتَرَاحَ فِی الْیَوْمِ السَّابِعِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلَی نَبِیِّہِ (ﷺ) ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ﴾) ( المجالسۃ وجواھرالعلم، ج :6) ” حضرت حسن (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام فرمایا تو اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) پر یہ آیت نازل فرمائی۔ ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ﴾” ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور جو ان کے درمیان چیزیں ہیں انہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی۔“ (قٓ:38) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رض) بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک موسم ابرآلود ہوگیا آپ (ﷺ) نے صحابہ سے پوچھا کیا تم اس کے بارے میں جانتے ہو؟ صحابہ نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ بادل زمین کو سیراب کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو ان لوگوں سے لے جاتا ہے جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے دعا کرتے ہیں۔ پھر آپ نے پوچھا تمہارے اوپر کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے یہ محفوظ اور مضبوط چھت اور بند موج ہے۔ پھر آپ نے پوچھا تمہارے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے پھر کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کے اوپر ایک اور آسمان ہے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سات آسمان شمار کیے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان اتنی ہی مسافت بیان کی۔“ (رواہ الترمذی : بَابٌ وَمِنْ سُورَۃِ الحَدِیدِ، قال الترمذی ہذا حدیث غریب من ہذا وجہ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر نیچے سات آسمان پیدا کیے ہیں۔ 2۔ باربار دیکھنے کے باوجود آسمان میں کوئی شگاف نظر نہیں آتا۔ تفسیر بالقرآن: زمین و آسمانوں کی تخلیق : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ :117) 2۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ:29) 4۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ :22) 4۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف :54) 5۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل :3) 6۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے موجود بغیر نمونے اور میٹریل کے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ :117) 7۔ زمین و آسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء :30) 8۔ اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ:12) (الاعراف :54)