تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
بابرکت [٢] ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت [٣] ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : سورۃ التحریم کا اختتام اچھے اور برے کردار کے بیان پر ہوا یہی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے کہ اسے آزمایا جائے کہ یہ اچھے عمل کرتا ہے یا برے۔ ” اللہ“ ہی کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہی ہے اور وہ بڑا ہی برکت والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تبارک کا دوسرا معنٰی کثرت خیر اور دوام خیر بھی کیا گیا ہے۔ ملک سے مراد ساری کائنات اور اس کی بادشاہی ہے۔ اس فرمان میں بیک وقت مادہ پرست سائنسدانوں اور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کی تردیدکی گئی ہے۔ جو سائنسدان سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات بگ بینگ (BIG BANG) کے ذریعے خود بخود معرض وجود میں آئی اور اسے کوئی بنانے اور چلانے والا نہیں ہے۔ مشرک یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے کچھ اختیارات دوسری ہستیوں کو بھی سونپ رکھے ہیں۔ ان کی تردید کے لیے فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں پوری کائنات اور اس کی بادشاہی ہے۔ کائنات کا نظام چلانے کے لیے نہ اس کا کوئی معاون ہے اور نہ مدد گار، اسے کسی کی معاونت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ اسی نے موت اور زندگی پیدا فرمائی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ وہ ظالموں پر غلبہ پانے والا اور نیک بندوں کو معاف کرنے والا ہے۔ یہاں موت کا تذکرہ حیات سے پہلے کیا گیا ہے کیونکہ انسان اور پوری کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ گویا کہ پہلے موت پھر زندگی پھر موت اور پھر زندگی ہے۔ ( البقرۃ:28) وہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والاہے۔ کوئی چیزنہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتی ہے اور نہ ” اللہ“ کے حکم کے بغیر کسی کو موت آتی ہے۔ اس نے عدم کے بعد زندگی اور زندگی کے بعد موت کا سلسلہ اس لیے جاری کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے۔ دین کے اعتبار سے بہتر عمل وہ ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے جو شخص اس کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیرہو یا غریب، راعی ہو یا رعایا اس سے ضرور پوچھا جائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا لیکن بتقاضا بشریت اس سے گناہ ہوگئے اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے گا کیونکہ وہ معاف کرنے والا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ.) (رواہ الترمذی : بَابُ مَا جَاءَ فِی قِصَرِ الأَمَلِ، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے میرا کندھا پکڑکر اور فرمایا دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ) (رواہ الحاکم : کتاب الرقاق، قال الحاکم ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) ایک آدمی کو نصیحت فرما رہے تھے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بابرکت ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا مالک اور اس کا بادشاہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آزمانے کے لیے موت اور زندگی کا سلسلہ بنایا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون شخص بہتر عمل کرتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود معاف کرنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن: انسان سب سے بہتر ہے اور اسے بہترین عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن التقویم بنایا ہے۔ ( التین :4) 2۔ اللہ تعالیٰ نے احسن حدیث اتاری ہے۔ (الزمر :33) 3۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا احسن بات ہے۔ (حم ٓ السجدۃ:33) 4۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا احسن طریقہ ہے۔ (حم ٓ السجدۃ:34) (النحل :125) ( الملک :2)