عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا
کچھ بعید نہیں کہ اگر نبی تمہیں طلاق دے دے [٧] تو اس کا پروردگار اسے تم سے بہتر [٨] بیویاں بدل دے جو مسلمان، مومن، اطاعت گزار [٩]، توبہ کرنے والی، عبادت گزار اور روزہ دار [١٠] ہوں، خواہ وہ شوہر [١١] دیدہ ہو یا کنواریاں ہوں
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی (ﷺ) کی ازواج مطہرات کو ایک اور تنبیہ۔ ازواج مطہرات کو توبہ کرنے کا حکم دینے کے بعد دوسری تنبیہ یہ کی گئی کہ اگر تم نے دوبارہ ایسی غلطی کی تو یاد رکھناکہ نبی (ﷺ) نے تمہیں طلاق دے دی تو نبی (ﷺ) کا رب اپنے نبی کو تم سے بہتر بیویاں عطا فرمائے گا جو پکی مسلمان، مومن، نہایت فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں، اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں، جوان اور کنواریاں ہوں گی، یادرہے کہ اس فرمان کا یہ مفہوم لینے کی ہرگز گنجائش نہیں کہ نبی (ﷺ) کی ازواج مطہرات میں یہ اوصاف نہیں پائے جاتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ اس فرمان میں ازوج مطہرات اور ان کے حوالے سے دختر اسلام کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ دنیاکی سہولیات کو مقدم رکھنے کی بجائے اپنے آپ کو ان اوصاف حمیدہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرتی رہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مسلم خواتین کا حقیقی جمال و کمال دنیا کی ترقی اور آسائش میں نہیں ان کا جمال اور کمال مذکورہ بالا اوصاف میں مضمر ہے۔ مفسرین نے اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کا تعلق آپ (ﷺ) کی تمام ازواج مطہرات کے ساتھ ہے۔ خیبر کی فتح کے بعد مسلمانوں کو بہت سی زمینیں اور مال غنیمت ہاتھ آیا جس سے غریب مسلمانوں کی حالت بھی کافی بہتر ہوگئی۔ مسلمانوں کی خوشحالی دیکھ کر ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد رسول کریم (ﷺ) سے تکرار کے ساتھ مطالبہ کیا کہ اب مسلمانوں کی معاشی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ اس لیے ہمیں بھی ان جیسی سہولیات ملنی چاہئیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مال غنیمت کا پانچواں حصہ اپنی ذات اور گھر والوں پر خرچ کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن آپ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے لیے سہولتوں کو پسند نہ فرمایا۔ جس بنا پر آپ (ﷺ) نے اپنی ازواج مطہرات کو بار بار سمجھایا کہ ہمیں پہلی حالت پر ہی گزارہ کرنا چاہیے لیکن ازواج مطہرات کا اصرار جاری رہا۔ حضرت عمر (رض) کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ (رض) جو نبی (ﷺ) کی ازواج میں شامل تھیں اسے سمجھایا کہ بیٹی اپنے آپ کو کسی دوسری پر قیاس نہ کرو اور اس معاملے میں دوسری عورتوں کا ساتھ نہ دو۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) آپ کی ان بیویوں کے پاس گئے جو حضرت عمر کی (رض) رشتہ دار تھیں، انہیں بھی یہ بات سمجھائی لیکن انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ آپ کو نبی (ﷺ) کے گھریلو معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے، اس پر حضرت عمر (رض) نے انہیں سمجھاتے ہوئے فرمایا : ﴿عَسَی رَبُّہُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُبَدِّلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنّ﴾ (رواہ البخاری : باب قولہ ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی﴾) کہ ہوسکتا ہے کہ نبی (ﷺ) اپنی بیویوں کو طلاق دے دیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو تم سے بہتر بیویاں عطاکردے۔ حضرت عمر (رض) کے سمجھانے کے باوجود ازواج مطہرات اپنے مطالبہ سے پیچھے نہ ہٹیں تب نبی معظم (ﷺ) نے ایک ماہ کے لیے اپنی ازواج سے ایلاء یعنی ایک ماہ تک بائیکاٹ کیا اور بالاخانے میں قیام فرما ہوئے، جس کی تفصیل سورۃ الاحزاب کی آیت 51، 52 میں بیان ہوچکی ہے۔ مسائل: مومن عورتوں کو اپنے آپ میں یہ خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہنا چاہیے۔ 2۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اس پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ 3۔ اپنے خاوندوں کی تابعداری کرنی چاہیے۔ 4۔ اللہ کے حضور توبہ کرتے رہنا چاہیے۔ 5۔ اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ 6۔ فرضی اور نفلی روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: مسلمان خواتین کے بڑے بڑے اوصاف : 1۔ پاک دامن، حیا دار اور با پردہ ہوتی ہیں۔ (المائدۃ: 5، القصص :25) 2۔ سچی مسلمان مطیع، توبہ کرنے والی، عبادت گزار اور روزے رکھنے والی ہوتی ہیں۔ (التحریم :5) 3۔ صدقہ کرنے والی، صابرہ، ڈرنے والی، سچی، پاکدامنہ اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والی ہوتی ہیں۔ (الاحزاب :35)