فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا
پھر جب وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں یا تو بھلے طریقے سے [٧] (اپنے نکاح میں) روکے رکھو یا پھر بھلے طریقے سے انہیں چھوڑ دو اور اپنے میں سے دو صاحب عدل [٨] گواہ بنا لو۔ اور (اے گواہو!) ! اللہ کے لئے شہادت ٹھیک ٹھیک [٩] ادا کرو۔ یہی بات ہے جس کی اس شخص کو نصیحت [١٠] کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا [١١] کردے گا۔
فہم القرآن: (آیت 2 سے 3) ربط کلام : عدّت کے دوران میاں بیوی کی آپس میں صلح نہ ہو تو انہیں اچھے طریقے سے ایک دوسرے سے الگ ہوجانا چاہیے۔ بیوی کو کسی اہم وجہ کے بغیر طلاق دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت ہی ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں طلاق دینے سے پہلے میاں بیوی اور ان کے لواحقین کو کچھ اقدامات اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو اس کا طویل طریقہ کار متعین کیا ہے تاکہ جہاں تک ہوسکے صورت حال کو طلاق تک پہنچنے سے روکاجائے۔ اگر بالفرض نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو حکم ہے کہ جب عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کو پہنچ جائیں تو طلاق رجعی کی صورت میں انہیں اچھے طریقے سے رکھنا ہے یا پھر بہترین انداز میں رخصت کرنا ہے۔ دونوں صورتوں میں دو منصف مزاج اور حق گو گواہوں کا ہونا لازم ہے تاکہ وہ بوقت ضرورت اللہ کے حکم کے مطابق ٹھیک، ٹھیک گواہی دیں۔ ان باتوں کی ان لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوگا، جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ اس نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ یہاں تک رجوع اور فارغ کرنے کے وقت دو گواہ مقرر کرنے کا تعلق ہے، یہ قطعی حکم نہیں کیونکہ اس کے لیے نصیحت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس لیے تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر گواہ بنانا بہتر ہے فرض نہیں۔ اس لیے سب کا اتفاق ہے کہ گواہوں کے بغیر رجوع اور طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق کے وقت بالخصوص عورت کے دل میں اپنے مستقبل کے بارے میں فکر پیدا ہوتی ہے کہ آئندہ زندگی گزارنا اس کے لیے کس طرح ممکن ہوگا۔ اس خوف سے نکالنے کے لیے ارشادہوا کہ جو اللہ پر بھروسہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ایسے مقام سے رزق عطا کرے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ رزق سے مراد ہر قسم کی نعمت اور زندگی کا سامان ہے۔ آدمی کے لیے اس میں یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ اللہ کا حکم مان کر عورت کو رخصت کرتے وقت کچھ دیتا ہے تو اسے یقین کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے وہ توقع بھی نہیں کرتا تھا۔ اس آیت کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے علامہ قرطبی کے حوالے سے یہ واقعہ لکھا ہے۔ عوف بن مالک اشجعی نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں آکر عرض کرتے ہیں کہ میرا بیٹا دشمن کی قید میں ہے۔ اس کی ماں اس کی جدائی میں بے چین اور نڈھال ہوچکی ہے۔ آپ اس کا کوئی حل ارشاد فرمائیں۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا اپنے بیٹے اور بیوی کو کہو کہ وہ کثرت سے ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا باللّٰہِ“ کا ورد کریں۔ انہوں نے ورد کیا تو ان کا بیٹا تھوڑے ہی دن بعد دشمن کی قید سے رہا ہوگیا۔ (الرغیب و الترہیب : باب الذکر والدعاء) مسائل: 1۔ مطلقہ عورت اپنی عدت پوری کرلے تو اسے اچھے انداز میں رکھنا ہے یا اچھے طریقے سے فارغ کرنا چاہیے۔ 2۔ مطلقہ عورت کو فارغ کرتے ہوئے دو منصف مزاج گواہوں کی گواہی ڈالنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ نافذ کرنے والا ہے۔ 4۔ جو اللہ سے ڈر کر معاملات طے کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی کا راستہ کھول دے گا۔ 5۔ جو اللہ سے ڈر کر زندگی بسر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے نامعلوم جگہ سے رزق عطا فرمائے گا۔ 6۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ 7۔ اللہ کے لیے سچی گواہی پر قائم رہنا چاہیے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لیے ایک وقت اور طریقہ مقرر کر رکھا ہے۔