يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
وہ اجتماع کے دن تم سب کو اکٹھا کرے گا اور یہی ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہار جیت [١٧] کا دن ہوگا۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ اس سے اس کی برائیاں دور کردے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی وہ ابدالاباد تک اس میں رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے
فہم القرآن: (آیت 9 سے 10) ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور وہی لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینے کے لیے قیامت برپا کرے گا۔ قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر مشتمل ہوگا اور اس میں کئی مراحل آئیں گے، نامعلوم! ایک مرحلہ دنیا کے کتنے سالوں پر محیط ہوگا۔ قیامت کے مختلف مراحل کی وجہ سے اس کے مختلف نام ہیں، قرآن مجید ہر مرحلہ کا نام لے کر اس کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہاں قیامت کے ابتدائی اور آخری مرحلے کے لیے دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ پہلے مرحلے میں لوگوں کو قبروں سے اٹھا کر ان کے اعمال کے مطابق انہیں محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا اس وجہ سے قیامت کے دن کو ” یَوْمَ الْجَمْعِ“ کا نام دیا ہے، قیامت کے آخری مرحلہ میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ کچھ لوگ اپنے اعمال کے نتیجے میں جہنم میں جائیں گے اور کچھ جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اس مرحلہ کو ” یَوْمُ التَّغَابُنِ“ یعنی وہ دن جس میں لوگوں کے درمیان ہارجیت کا فیصلہ ہوگا۔ ہارنے والے جہنم میں جائیں گے اور جیتنے والے جنت میں داخل ہوں گے، جو لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو آخرت کے مقابلے میں دنیا کے مفاد اور جیت کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ دنیا میں تو یہ لوگ نیک لوگوں کے مقابلے میں ترقی کرگئے اور بعض دفعہ حق کے مقابلے میں جیت گئے۔ لیکن قیامت کے دن وہ ایسی شکست سے دوچار ہوں گے جو کبھی کامیابی میں تبدیل نہیں ہوگی۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ دین کی خاطر نقصان برداشت کرتے ہوئے دنیا کی بازی ہار گئے قیامت کے دن انہیں وہ جیت اور کامیابی حاصل ہوگی جو کبھی ناکامی میں تبدیل نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کے سچے ایمان اور صالح کردار کی وجہ سے ان کی غلطیوں کو معاف فرمائے گا اور انہیں ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے یہ ان کے لیے بڑی کامیابی ہوگی، ان کے مقابلے میں جو لوگ دنیا میں حق بات کا انکار اور اس کی تکذیب کرتے رہے وہ ہمیشہ کے لیے آگ میں جھونکے جائیں گے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہوگی۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا میری امت کا جنت میں داخل ہونے والا گروہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے چہروں والا ہوگا پھر ان کے بعد آسمان پر روشن ستاروں کی طرح پھر درجہ بدرجہ ہوں گے۔ جنتی نہ پیشاب کریں گے نہ قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی وہ تھوکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیاں عود کی اور ان کے پسینے مشک عنبر کی طرح ہوں گے۔ ان سب کا ایک جیسا اخلاق ہوگا اور قدو قامت آدم (علیہ السلام) کے برابر ساٹھ ہاتھ ہوگی۔“ (رواہ مسلم : باب أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلَی صُورَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا دنیاکی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے پر ہے۔ رسول معظم (ﷺ) سے عرض کیا گیا کیا جلانے کے لیے یہ آگ کافی تھی؟ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہوگی اس کا ہر درجہ ایک دوسرے کے برابر ہوگا۔“ ( رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار) مسائل: 1۔ قیامت کے دن تمام لوگوں کی جمع کرلیا جائے گا۔ 2۔ قیامت کا دن ہار جیت کا دن ہوگا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سچے ایمان اور صالح کردار لوگوں کی غلطیوں کو معاف فرمادے گا اور انہیں ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کرے گا۔ 4۔ مسلمان کے لیے قیامت کے دن کی جیت سب سے بڑی جیت ہوگی۔ 5۔ اللہ اور اس کے رسول اور قیامت کو جھٹلانے والے بدترین ناکامی سے دوچار ہوں گے اور انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔