وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ
اور جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے۔ اس میں سے وہ وقت آنے سے پہلے پہلے خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو کہنے لگے : اے میرے پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی مدت اور کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ کرلیتا [١٥] اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا
فہم القرآن: (آیت 10 سے 11) ربط کلام : مال کی محبت سے بچنے کا بہترین طریقہ۔ انسان کی کمزوریوں میں ایک کمزوری یہ ہے کہ انسان زندگی بھر مال کی محبت میں سرگرداں رہتا ہے۔ حد سے زیادہ مال کی حرص سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتارہے قبل اس کے کہ اسے موت آجائے اور یہ اپنے رب سے آرزو کرے کہ میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں تیرے راستے میں مال خرچ کرتا اور نیک لوگوں میں شمار ہوتا، لیکن اس وقت کسی انسان کو نہ مہلت دی گئی ہے اور نہ دی جائے گی کیونکہ جب کسی شخض کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس میں ایک لمحہ بھی تقدیم و تاخیر نہیں کی جاتی۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ ” خَبِیْرٌ“ کے لفظ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اگر ان لوگوں کو مہلت دے دی جائے تو پھر بھی اسی طرح بخل کا مظاہرہ کریں گے جس طرح زندگی بھر کرتے رہے ہیں۔ ﴿بَلْ بَدَالَہُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَانُہُوْا عَنْہُ وَ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ﴾ (الانعام :28) ” بلکہ ان کے لیے ظاہر ہوگیا جو وہ اس سے پہلے چھپاتے تھے اور اگر انہیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَتَعَوَّذُ یَقُولُ ” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ“ ) (رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب التعوذ من أرذل العمر) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں سستی، بزدلی، ناکارہ پن بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے مالک تھے۔ باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین باغ تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (ﷺ) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں : اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینامیرے پاس ” بیرحاء“ کا باغ ہے جو پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (ﷺ) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔“ (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾) مسائل: 1۔ ہر مسلمان کو اپنی موت سے پہلے دل کھول کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہیے۔ 2۔ موت کے وقت کسی شخص کو ایک لمحہ بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے باخبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اور اس کے فوائد : 1۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ:265) 2۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ:272) 3۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء :114) 4۔ ” اللہ“ کی رضا چاہنے والوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد :22) 5۔ مخلص حضرات لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے ان کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر : 9)