يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد [١٤] تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں
فہم القرآن: ربط کلام : منافق اولاد اور مال کی خاطر منافقت اختیار کرتا ہے جس سے ایماندار لوگوں کو منع گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جن چیزوں کو آزمائش قرار دیا ہے ان میں سر فہرست اولاد اور مال ہے۔ ان چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے اکثر مقامات پر مال کا پہلے ذکر کیا ہے۔ بے شمار لوگ مال کی خاطر اپنا ایمان اور عزت برباد کرلیتے ہیں اور اولادکی محبت میں ماں باپ وہ کچھ کرجاتے ہیں جس کے کرنے کی شریعت نے انہیں اجازت نہیں دی۔ مال اور اولاد کی آزمائش سے بچ کر زندگی بسر کرنا مومن کے لیے لازم ہے۔ اس لیے مومنوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! تمہیں تمہارے مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، جنہوں نے اللہ کے ذکر سے غفلت اختیار کی وہ لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ اللہ کے ذکر سے غفلت کی کئی صورتیں ہیں۔ ” اللہ“ کی ذات کو اس طرح وحدہٗ لاشریک نہ ماننا جس طرح اس نے ماننے کا حکم دیا ہے۔ اس کے احکام کا انکار کرنا، اس کی مقرر کردہ عبادات سے تغافل کرنا اور اس کے ذکرسے غفلت اختیار کرنا ہے، جو لوگ ان صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں غفلت کریں گے وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ ذکر کا جامع مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہر حال میں ” اللہ“ کی ذات اور فرمان کا خیال رکھے۔ ” اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔“ (طٰہٰ:124) (عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ) ( رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل) ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا اللہ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔“ یعنی جو ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہے جو ذکر نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔ مسائل: 1۔ ایمانداروں کو اپنی اولاد اور مال کی وجہ سے اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ جو لوگ اللہ کے ذکر سے غافل ہوں گے وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔