وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ
اور جب انہیں کہا جائے کہ : آؤ (تاکہ) اللہ کے رسول تمہارے لیے مغفرت طلب کریں'' تو سر جھٹک دیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ از راہ [٩] تکبر آنے سے رک جاتے ہیں
فہم القرآن: (آیت 5 سے 6) ربط کلام : منافقین کی ہٹ دھرمی کی انتہا۔ منافقت ایسا نقص اور عیب ہے کہ جو زیادہ دیرتک چھپ نہیں سکتا۔ جب مدینہ کے منافقین کی منافقت ظاہر ہوگی تو ان کے عزیز و اقرباء میں مخلص مسلمانوں نے انہیں سمجھایا کہ آئندہ اس حرکت سے توبہ کرو اور اپنی غلطیوں کی نبی محترم (ﷺ) سے معذرت کرلو۔ منافقین نے کھلے الفاظ میں کہا کہ ہمیں کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی موقع پر عبداللہ بن ابی کو مسلمانوں نے سمجھایا کہ آؤ اللہ کے رسول سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) تیرے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ عبداللہ بن ابی نے بڑی نخوت کے ساتھ جواب دیا کہ تم لوگوں نے مجھے اس پر ایمان لانے کی دعوت دی، میں اس پر ایمان لے آیا۔ تم نے نماز کے لیے کہا تو میں نے نماز پڑھنا شروع کردی، تم نے زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کے لیے کہا تو میں نے صدقہ کیا اور زکوٰۃ دی۔ اب کہتے ہو کہ میں اس سے معافی مانگوں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ یہی حالت دوسرے منافقین کی تھی جب انہیں یہ بات کہی جاتی کہ اگر تم توبہ کرو اور اللہ کے رسول سے اپنے لیے استغفار کی درخواست کرو تو وہ پوری رعونت سے سر ہلاتے ہوئے آپ (ﷺ) کے پاس آنے سے انکار کرتے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ کے رسول کو بتلایا گیا کہ آپ ان کے لیے معافی مانگیں یا نہ مانگیں اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ ” اللہ“ اس قسم کے نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ﴿اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ (التوبۃ:80) ” ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں اگر آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیض کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے اسے قمیض عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (ﷺ) سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ جب رسول معظم (ﷺ) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (ﷺ) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع کیا ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (ﷺ) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ منافقوں میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ ( رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران ) مسائل: 1۔ منافقین اپنی منافقت اور تکبر کی بنا پر استغفار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (ﷺ) کو منافقین کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا تھا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہٹ دھرم شخص کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن: منافقین کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا ہے۔ (التوبہ :73) 2۔ منافق کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:10) 3۔” اللہ“ کے نزدیک منافق لعنتی ہیں۔ (الاحزاب :61) 4۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء :145) 5۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی رہے گی۔ (التوبہ :68) 6۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء :145) 7۔ اے نبی منافقین اور کفار کے ساتھ سختی کے ساتھ سے جہاد کرو۔ ( التحریم :9)