قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
آپ ان سے کہیے : اے لوگو! جو یہودی بنے ہوئے ہو، اگر تمام یہ سمجھتے ہو کہ تمام لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے دوست ہو [١١] تو اگر تم اس بات میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو
فہم القرآن: (آیت 6 سے 8) ربط کلام : جن لوگوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اور ظالم ہوئے ان میں سر فہرست یہودی ہیں۔ اس لیے انہیں ایک بار پھر براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو یہودی کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ انہیں ” ھَادُوْ“ کے الفاظ سے مخاطب کیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ اے لوگو! جو یہودی بن چکے ہو اگر تمہیں اس بات کا خیال ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو تو پھر موت کی تمنا کرو بشرطیکہ تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ لیکن یہ لوگ موت کی تمنا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہیں، یہ اپنے مظالم کو بھول سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ظالموں کے ایک ایک ظلم کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اے رسول (ﷺ) ان سے فرمائیں کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمہیں آکر رہے گی پھر تم اس ذات کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ (المائدۃ:18) اسی بنا پر یہودی یہ کہتے ہیں کہ ہم چند دن کے لیے جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ (البقرۃ:80) یہاں تک موت کی تمنا کرنے کا مسئلہ ہے نہ کوئی موت کی تمنا کرتا ہے اور نہ کسی کو کرنی چاہیے لیکن یہودیوں کو یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے چہیتے اور جنت کے مالک سمجھتے ہیں۔ جس شخص کو یہ یقین ہے کہ وہ اپنے رب کا چہیتا اور جنت اس کی اپنی ہے تو اسے موت سے گھبرانے کی بجائے اپنے مشن کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دینی چاہیے۔ لیکن یہودی دنیا کی خاطر نہ صرف اپنے دین کو فروخت کرتے ہیں بلکہ اپنی عزت کا سودا کرنے سے بھی باز نہیں آتے، دنیا کی حرص کی وجہ سے ان کا اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان نہیں جس وجہ سے وہ سب سے زیادہ موت سے ڈرتے ہیں حالانکہ موت سے بھاگنے والا اس سے بچ نہیں سکتا اور نہ ہی وہ اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ سے چھپا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے، وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا کہ جو وہ دنیا میں عمل کرتے رہے۔ ﴿اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِہِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا قُلْ فَادْرَءُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (آل عمران :168) ” یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے۔ فرما دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنے آپ سے موت ہٹا کر دکھاؤ۔“ ﴿اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ﴾ (النساء :78) ” تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں پالے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہوجاؤ۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) الْمَدِینَۃَ وُعِکَ أَبُو بَکْرٍ وَ بلاَل (رض) قَالَت فَدَخَلْتُ عَلَیْہِمَا فَقُلْتُ یَا أَبَتِ کَیْفَ تَجِدُکَ وَیَا بلاَلُ کَیْفَ تَجِدُکَ قَالَتْ فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمَّی یَقُولُ کُلُّ امْرِءٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ وَالْمَوْتُ أَدْنَی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی وَبَاءِ الْمَدِینَۃِ) ” ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم (ﷺ) مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر اور بلال (رض) کو شدید بخار ہوگیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں ان کے ہاں گئی اور ان کی تیماداری کی۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ ہر انسان اپنے گھر میں صبح کرتا ہے اور موت جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَائِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (ﷺ) کی بیویوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے گردو پیش کی تمام چیزوں سے ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ یہودیوں کا دعویٰ جھوٹا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں۔ اپنے دعوے میں جھوٹے ہونے کی وجہ سے یہودی تمام لوگوں کی نسبت موت سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ 2۔ کوئی موت سے بھاگے یا نہ بھا گے موت ہر صورت اسے آلے گی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہرقسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا جو وہ دنیا میں عمل کیا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن : موت ایک حقیقت ہے جس سے کوئی بچ نہیں سکتا : 1۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : 26، القصص :88) 2۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء :78) 3۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف :34) 4۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران :144) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے (اور ہوئے)۔ (الزمر :30) 6۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران :145) 7۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران :154) 8۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران :168) 9۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء :35) 10۔ ” اللہ“ نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ( الانبیاء :34)