يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ
اے ایمان والو! ایسی [٢] بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔
فہم القرآن: (آیت 2 سے 4) ربط کلام : اللہ کی تسبیح کے بیان اور سورت کے تمہیدی کلمات کے بعد پہلا حکم۔ اس سورت کا مرکزی مضمون قتال فی سبیل اللہ ہے اسی لیے پہلا حکم یہ ہے کہ اے ایمان والو! جس بات پر تمہارا عمل نہیں وہ بات تمہیں نہیں کہنی چاہیے۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑا جرم ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تمہارا عمل نہیں۔ مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان فرمائے ہیں۔ 1۔ جب قتال فی سبیل اللہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو کچھ ایماندار لوگ نبی (ﷺ) سے قتال فی سبیل اللہ کی اجازت مانگتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ اگر ہمیں کفار کے خلاف قتال کی اجازت دی جائے تو ہم جان توڑ کرلڑیں گے۔ لیکن جونہی قتال فی سبیل اللہ کا حکم آیا تو دعویٰ کرنے والے قتال فی سبیل اللہ سے جی چرانے اور جان بچانے لگے۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ وہ دعویٰ اور بات نہ کیا کرو جس پر تم عمل نہیں کرتے۔ 2۔ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ جس بات پر آدمی کا اپنا عمل نہ ہو اسے اس بات کی دعوت دوسروں کو نہیں دینی چاہیے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف دعوت دینے والے کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دوغلے پن کی وجہ سے اسلام کی سبکی کا پہلو نکلتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑا جرم ہے۔ یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ جب قتال فی سبیل اللہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو اس وقت بعض مسلمان قتال فی سبیل اللہ کا مطالبہ کرتے تھے۔ جب قتال فی سبیل اللہ فرض ہوا تو پھر اس سے جی چرانے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں منظم اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔ اس مختصر فرمان میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں۔ 1۔ قتال کے بارے میں ” فِیْ سَبِیْلِہٖ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں گویا کہ سب سے پہلا حکم یہ ہے کہ قتال کرنے میں مسلمانوں کی ذاتی اغراض کی بجائے اعلائے کلمۃ اللہ کا مقصد ہونا چاہیے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَل تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْیَدْعُوْ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلٰی اُمَّتِیْ بِسَیْفِہٖ یَضْرِبُ بَرَّھَا وَ فَاجِرَھَا وَلَا یَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَفِیْ لِذِیْ عَھْدٍ عَھْدَہٗ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَۃِ عِنْدَ ظُہُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِیر الدُّعَاۃِ إِلَی الْکُفْرِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے سنا جو اطاعت اور جماعت سے علیحدہ ہوا۔ اور اسی حالت میں فوت ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص نامعلوم جھنڈے کے نیچے لڑتا رہا عصبیت کی خاطر غیرت میں آیا اور عصبیت کی بنیاد پر دعوت دیتا رہا یا عصبیت کی وجہ سے مدد کرتا ہوا قتل ہوا اس کی موت جہالت پر ہوگی۔ جو شخص میری امت کے خلاف تلوار سونت کر نیک و بد سب کو تہ تیغ کرتا چلا گیا اور کسی مومن کی اس نے پروانہ کی اور نہ ہی کسی عہد والے کے عہد کا پاس کیا وہ مجھ سے نہیں اور نہ ہی میرا کوئی اس سے تعلق ہے۔“ مسلمانوں کی صف بندی کا ایک منظر اور اتحاد کی اہمیت : (کَانَ رُسْتَمُ اِذَا رَایَ الْمُسْلِمِیْنَ یَجْتَمِعُوْنَ إِلٰی الصَّلٰوۃِ قَالَ اَکَلَ کَبِدِی عُمَرُ یُعَلِّمُ الْکِلَابَ الْادَاْبَ) (ابن خلدون) ” جب رستم نے مسلمانوں کو نماز کے لیے صف آرا ہوتے ہوئے دیکھا تو چلا کر کہنے لگا ہائے افسوس عمر (رض) نے میرا کلیجہ چبا لیا ہے کیونکہ وہ وحشی درندوں کو منظم ہونے کے آداب سکھلا رہا ہے۔“ اگر مجاہدین میں جہاد کے بارے میں فکری انتشار یا لڑنے میں عملی اختلاف ہو تو وہ جان توڑ کرجہاد نہیں کرسکتے۔ اس لیے مجاہد جس قدر فکری طور پر یکسو اور عملی طور پر یکجا ہوں گے کامیابی ان کا مقدر بن جائے گی۔ مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں آج تک جتنا نقصان ہوا وہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہوا۔ اس سے بچنے کے لیے ” بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ“ کے الفاظ استعمال کیے۔ (عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ (رض) یَقُولُ أَتَی النَّبِیَّ (ﷺ) رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بالْحَدِیدِ فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أُقَاتِلُ وَأُسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِل فَقَالَ رَسُول اللّٰہ (ﷺ) عَمِلَ قَلِیلاً وَأُجِرَ کَثِیرًا) (رواہ البخاری : باب عَمَلٌ صَالِحٌ قَبْلَ الْقِتَالِ وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ بِأَعْمَالِکُمْ وَقَوْلُہ ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللہِ أَنْ تَقُولُوا مَا لاَ تَفْعَلُونَ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ﴾) ” حضرت اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی زرہ پہنے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! میں قتال کروں یا اسلام لاؤں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا پہلے اسلام قبول کرو پھر قتال کرو۔ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا پھر اللہ کے راستے میں قتال کرتا ہوا شہید ہوگیا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اس نے عمل کم کیے لیکن اجر زیادہ پالیا۔“ ” بُنْیَانٌ“ کا معنٰی ہے تعمیر کرنا، بنانا یا آباد کرنا اور مرصوص کا معنٰی ایک حصے کو دوسرے کے ساتھ ملاناکسی چیز پر تانبے کی قلعی کرنا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قتال فی سبیل اللہ کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ 2۔ کامیابی کے لیے لازم ہے کہ مجاہدین منظم اور سیسہ پلائی دیوار بن کر قتال کریں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پسند کرتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ پاکبازلوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ :222) 2۔” اللہ“ نیک لوگ پاک صاف رہتے ہیں۔ (التوبہ :108) 3۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ:42) 4۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :159) 5۔ اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔ (التوبہ : 4۔7) 6۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ:222) 7۔ بے شک اللہ متقین کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :76) 8۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ:195) 9۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ:13) 10۔ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کریں۔ اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الحجرات :9)