يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
اے ایمان والو! ایسے لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب [٣٠] ہوا، وہ تو آخرت سے ایسے ہی مایوس ہیں جیسے کافر اہل قبور [٣١] سے مایوس ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : الممتحنہ کی ابتدا جس حکم کے ساتھ کی گئی ہے اسی پر اس کا اختتام کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی اللہ اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائیں۔ اس کے دلائل دیتے ہوئے مشرکین کے خلاف ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا اعلانِ برأت پیش کیا گیا جس کے لیے ارشاد ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کا طریقہ وہی شخص اختیار کرے گا جو اللہ کے حضور حاضر ہونے اور آخرت کی جوابدہی کا عقیدہ رکھتا ہے بالفاظ دیگر دوسرے شخص سے ایسے مضبوط ایمان اور جرأت مندانہ کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے بعد اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ہر کافر سے ہر قسم کی لاتعلقی کا حکم نہیں دیتا وہ ان کفار کے ساتھ تعلقات توڑنے اور لڑنے کا حکم دیتا ہے جو تمہارے اور تمہار دین کے دشمن ہیں۔ انہی کلمات پر سورۃ کا اختتام کیا جا رہا ہے اے ایمان والو! اللہ اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوچکا ہے لہٰذا ایماندار شخص کو کسی مغضوب علیہ کے ساتھ رشتہ داری اور قلبی لگاؤ نہیں رکھنا چاہیے۔ جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے وہ آخرت سے اس طرح ہی مایوس ہوچکے ہیں جس طرح کفار قبروں والوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ ” اَصْحَابِ الْقُبُوْرِ“ صحابہ کرام (رض) نے کفار کی مایوسی کے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ 1۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور دیگر صحابہ نے یہ مفہوم لیا ہے کہ جو لوگ موت کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں وہ اس بات سے مایوس ہیں کہ ان کے جو عزیز و اقرباء فوت ہوچکے ہیں وہ دوبارہ کبھی زندہ ہوں گے۔ 2۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور حضرت مجاہد (رح) اور ان کے ہم فکر اصحاب اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ جو کافر فوت ہوچکے ہیں انہوں نے اپنی قبروں میں اس حقیقت کو پالیا ہے کہ آخرت میں انہیں عذاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا گویا کہ وہ اللہ کی رحمت سے کلی طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ ہمارے دور میں کچھ نادان لوگوں نے اپنے باطل عقیدہ کی تائید کے لیے اس آیت کا بالکل ہی مخالف مفہوم لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ا ہل قبور کے اختیارات سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو کافر ہیں۔ (عَائِشَۃَ (رض) أَنَّ یَہُودِیَّۃً دَخَلَتْ عَلَیْہَا، فَذَکَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ، فَقَالَتْ لَہَا أَعَاذَکِ اللَّہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِفَسَأَلَتْ عَائِشَۃُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَۃُ (رض) فَمَا رَأَیْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) بَعْدُ صَلَّی صَلاَۃً إِلاَّ تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ) ” سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ایک یہودی عورت آئی وہ قبر کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگی تجھے اللہ عذاب کے قبر سے محفوظ فرمائے۔ سیدہ عائشہ (رض) نے آپ (ﷺ) سے عذاب قبر کے متعلق پوچھا آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو کوئی ایسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا جس میں آپ نے عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (غندر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔) “ مسائل: 1۔ کسی ایماندار کو کسی کافر اور مشرک کے ساتھ قلبی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ 2۔ کفار اور مشرکین پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ 3۔ کسی ایماندار کے لیے جائز نہیں کہ وہ مغضوب علیہ کے ساتھ رشتہ داری یا دلی محبت کرے۔ 4۔ کافر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا غضب کن لوگوں پرنازل ہوتا ہے : 1۔ مشرکوں پر اللہ کا غضب ہوتا ہے۔ (الاعراف :152) 2۔ بنی اسرائیل مغضوب لوگ ہیں۔ (البقرۃ:61) 3۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان قیامت تک کے لیے باہم اختلافات رہیں گے۔ ( المائدۃ:64) 4۔ انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے۔ (آل عمران :112) 5۔ یہودی اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔ (البقرۃ :90) 6۔ گمراہ اور مغضوب کو دلی دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (الممتحنہ :13)