يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ان امور پر بیعت [٢٥] کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گی، نہ چوری کریں گی، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل [٢٦] کریں گی، اپنے ہاتھ اور پاؤں کے آگے [٢٧] کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی نیک امر میں آپ کی نافرمانی [٢٨] نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیجئے [٢٩] اور ان کے لئے اللہ سے معافی مانگئے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً بخشنے والا ہے رحم کرنے والا ہے
فہم القرآن: ربط کلام : پچھلی آیات میں ایمان لانے والی مہاجر عورتوں سے امتحان لینے کا حکم تھا اور اب امتحان کے لیے چند اصول بتلائے جا رہے ہیں۔ پہلی آیت میں نبی (ﷺ) کی بجائے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے کہ جب مدینہ کی طرف ہجرت کر کے آنے والی عورتیں اپنے ایمان کا دعویٰ کریں تو ان کے ایمان کی جانچ پڑتال کرلیا کرو۔ اب بیعت لینے کے لیے نبی (ﷺ) کو حکم دیا گیا ہے کہ جب آپ کے پاس ایمان لانے والی عورتیں حاضر ہوں تو آپ ان سے ان امور پر بیعت لیا کریں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ 2۔ کسی کا مال چوری نہ کریں۔ 3۔ بدکاری نہ کریں۔ 4۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں۔ 5۔ اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کسی پر تہمت نہ لگائیں۔ 6۔ کسی نیک کام میں آپ (ﷺ) کی نافرمانی نہ کریں۔ جن باتوں کے بارے میں عورتوں سے بیعت لینے کا حکم ہے ان سے بچنا ہر مومن عورت اور مومن مرد پر فرض ہے۔ عورتوں سے بیعت لینے کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اس سے پچھلی آیات میں ہجرت کرنے والی مومن عورتوں کا ذکر ہوا ہے۔ پھر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ گناہ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں عورتوں کی بیعت اور اس کی شرائط کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو مسلمان عورتیں ان باتوں پر پختہ عہد کریں آپ (ﷺ) کو ان کے حق میں اللہ سے بخشش کی دعا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان عورتوں کو ان کے گناہوں کی بخشش کا یقین دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والامہربان ہے۔ جن پانچ گناہوں پر بیعت لینے کا حکم ہے ان میں شرک کے علاوہ باقی گناہ ایسے ہیں جن پر شریعت نے حد مقرر کی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی گناہ کسی مرد یا عورت پر ثابت ہوجائے تو شریعت کے مطابق اس پر حد نافذ کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ بَایَعْنَا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَأَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَہْلَہُ، وَأَنْ نَقُوم بالْحَقِّ حَیْثُمَا کُنَّا لاَ نَخَافُ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ) (رواہ النسائی : باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ) ” حضرت عبادۃ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (ﷺ) سے ان باتوں پر بیعت کی : آپ (ﷺ) کی سمع واطاعت کریں گے چاہے تنگی ہو یا فراخی، چاہے ہمارے لیے پسندیدہ بات ہو یا نا پسندہو، چاہے ہم پر کسی کو ترجیح کیوں نہ دی جائے، اس شرط کے ساتھ کہ ہم صاحب امر کے ساتھ جھگڑا نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔“ پیر ومرشد کی بیعت : بیعت کا لفظ بیع سے نکلا ہے اس کا معنی ہے کسی سے سودا کرنا یا کوئی ذمہ داری قبول کرنا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے حوالے کے لیے اس آیت کی تفسیر بالقرآن: ملاحظہ فرمائیں۔ اصطلاحاً بیعت اس معاہدے کو کہا جاتا ہے جو امیر کی اطاعت کے لیے کیا جاتا ہے۔ صوفیائے کرام نے اپنے حلقے میں اصلاح کے نام پر ایک نئی روایت ڈالی گئی ہے جس کا خیر القرون میں وجود نہیں ملتا اگر اس فعل کا مقصود لوگوں کی اصلاح ہے تو یہ مقصد مبلغ کی تبلیغ، معلم کی تعلیم اور علماء کی تربیت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں بیعت کا تذکرہ : 1۔ اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ :111) 2۔ ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقیناً اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الممتحنہ :12) 3۔ اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ (ﷺ) سے بیعت کر رہے تھے۔ (الفتح :13)