يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کی طرف محبت کی طرح ڈالتے ہو۔ حالانکہ جو حق تمہارے پاس [١] آیا ہے وہ اس کا انکار کرچکے ہیں۔ وہ رسول کو اور خود تمہیں بھی اس بنا پر جلاوطن [٢] کرتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ اب اگر تم (برائے فتح مکہ) میری راہ میں جہاد اور میری رضاجوئی کی خاطر نکلے ہو تو خفیہ [٣] طور پر انہیں دوستی کا نامہ و پیام بھیجتے ہو؟ حالانکہ جو کچھ تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو میں اسے خوب جانتا [٤] ہوں۔ اور تم سے جو بھی ایسا کام کرے وہ سیدھی راہ [٥] سے بھٹک گیا
فہم القرآن: ربط سورت : سورۃ الحشر کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اپنی مخلوق پر غالب ہے تو مسلمانوں کو اسی کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی اور سے بالخصوص اپنے اور اللہ کے دشمنوں سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اسی لیے سورۃ الممتحنہ کی ابتدا اس حکم کے ساتھ کی جارہی ہے کہ مسلمانو! اپنے اور ” اللہ“ کے دشمن کو خیر خواہ نہ سمجھو! الممتحنہ کا لفظ امتحان سے مشتق ہے جس کا معنٰی ہے آزمانا ورآزمائش کرنا ہے۔ مفسرین کی غالب اکثریت نے سورۃ الممتحنہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب مکہ والوں نے حدیبیہ میں ہونے والے عہد کو توڑ دیا تو نبی معظم (ﷺ) نے نہایت رازداری کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی کرنے کی تیاری کا آغاز فرمایا۔ اسی دوران مکہ سے ایک عورت مدینہ آئی جسے حاطب (رض) بن ابی بلتعہ نے ایک خط لکھ کردیا کہ یہ خط مکہ کے فلاں سردار تک پہنچا دیا جائے۔ خط میں نبی معظم (ﷺ) کی جنگی تیاریوں کا ذکر کیا گیا، ادھر عورت خط لے کر مکہ جارہی تھی۔ دوسری طرف یہ بات وحی کے ذریعے نبی (ﷺ) کے علم میں لائی گئی۔ آپ (ﷺ) نے حضرت علی کے ساتھ مقدار اور حضرت زبیر (رض)۔ دوسری روایت میں ہے کہ ابو مرثد غنوی (رض) بھی وفد میں شامل تھے۔ فرمایا کہ تیزی سے مکہ کی طرف جاؤ۔ وہ عورت تمہیں مکہ سے پہلے روضہ خاخ مقام پر ملے گی تمہیں ہر صورت اس سے حاطب کا دیا ہوا خط واپس لانا ہوگا۔ تینوں حضرات دن رات سفر کرتے ہوئے روضۂ خاخ مقام کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک عورت اونٹ پر سوار بڑی تیزی کے ساتھ مکہ کی طرف جارہی ہے۔ وفد نے تیز قدمی کے ساتھ اسے روک لیا اور خط کے بارے میں اس سے پوچھا لیکن وہ کسی صورت بھی اقرار کرنے کے لیے تیارنہ ہوئی۔ قریب تھا کہ وفد واپس آجاتا لیکن حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اللہ کے نبی (ﷺ) کا فرمان جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا خط اس عورت کے پاس ہے۔ حضرت علی (رض) آگے بڑھے اور تلوار لہراتے ہوئے کہا کہ اگر تو نے خط ہمارے حوالے نہ کیا تو ہم تجھے برہنہ کرکے تلاشی لیں گے۔ یہ کہتے ہوئے صحابہ (رض) اس کی طرف بڑھے ہی تھے کہ اس نے اپنے سر کے بالوں سے خط نکال کر حضرت علی (رض) کے حوالے کردیا۔ خط لے کر صحابہ واپس آئے تو آپ (ﷺ) نے حاطب بن ابی بلتعہ کو طلب فرمایا اور اس سے استفسار کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ حاطب (رض) نے بڑی عاجزی سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! نہ میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی میں نے مسلمانوں سے غداری کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مدینہ آنے والے اصحاب کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار مکہ میں موجود ہے میں نے سوچا کہ جب ہم مکہ پر یلغار کریں گے تو مہاجرین کے رشتہ دار ان کے مکی رشتہ داروں کی کسی نہ کسی صورت میں حفاظت کریں گے۔ لیکن میری مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں کیونکہ میں باہر سے آکر مکہ میں مقیم ہوا تھا اس لیے میرے بیوی بچوں کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ میں نے مکہ والوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ خط لکھا تاکہ وہ اس احسان کے بدلے میرے بیوی بچوں کی حفاظت کریں اس کے سوا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ جب آپ (ﷺ) اس معاملہ کی انکوائری کررہے تھے تو حضرت عمر (رض) نے کہا کہ اللہ کے نبی! مجھے اجازت دیں کہ میں حاطب کا سرکاٹ دوں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا عمر! حوصلہ کرو تجھے معلوم نہیں؟ کہ حاطب بدری صحابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بدر میں شرکت کرنے والے صحابہ کو معاف کردیا ہے۔ (رواہ البخاری : باب غزوۃ الفتح) حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کی بات سن کر نبی (ﷺ) کو یقین ہوگیا کہ حاطب نے یہ غلطی سازش کے تحت نہیں کی بلکہ اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کے لیے کی ہے جس پر آپ (ﷺ) نے اسے معاف فرمادیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں جس میں دوٹوک انداز میں حکم دیا ہے کہ مسلمانو! اگر تم میرے راستے میں لڑنے اور میری خوشنودی کے لیے مکہ سے نکلے ہو تو پھر میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست اور خیر خواہ نہ سمجھو! تم ان کو دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور وہ حق آجانے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے تمہیں اور ال رسول (ﷺ) کو مکہ سے اس لیے نکال باہر کیا کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا رب ہے۔ یاد رکھو! جو تم خفیہ یا اعلانیہ طور پر کرتے ہومیں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم میں جوایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک جائے گا۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اور دین کے دشمنوں کو دوست نہ سمجھیں اور نہ ان کے سامنے اپنے راز فاش کریں۔ مسلمانوں کا راز فاش کرنے سے ایک طرف مسلمان کمزور ہوں گے، دوسری طرف دشمن کو تقویت ملے گی، جس سے تمہیں دنیا میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں عذاب ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَفْضَلُ الأَعْمَالِ الْحُبُّ فِی اللَّہِ وَالْبُغْضُ فِی اللَّہِ) (رواہ ابوداؤد : باب مُجَانَبَۃِ أَہْلِ الأَہْوَاءِ وَبُغْضِہِمْ) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا افضل اعمال اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرنا اور اس کی خاطر کسی سے بغض رکھنا ہے۔“ مسائل: 1۔ مسلمانوں کو اپنے اور اللہ کے دشمنوں کو دوست نہیں بنانا چاہیے ۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے خفیہ اور ظاہری عمل کو جانتا ہے۔ 3۔ جس نے مسلمانوں کا راز فاش کیا وہ گمراہ ہوگیا۔ تفسیربالقرآن : کفار کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہیے : 1۔ اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنہ : 1تا2) 2۔ اے ایمان والو! جن پر اللہ کا غضب ہوا انھیں اپنا دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنہ :13) 3۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنھوں نے تمہارے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے۔ (المائدۃ: 56تا57) 4۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ:51) 5۔ اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (النساء :144)