وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور ان (یہودیوں کے اموال) سے جو کچھ اللہ نے ان سے اپنے رسول کو مفت میں دلا دیا جس کے لیے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے [٦] تھے اور نہ اونٹ (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں) بلکہ اللہ ہی اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
فہم القرآن: (آیت 6 سے 7) ربط کلام : بنو نضیر کے چھوڑے ہوئے مال کے بارے میں حکم۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر پر مسلمانوں کا اس طرح دبدبہ اور رعب طاری کیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے حملہ کیے بغیر ہی اپنے گھر بار اور پورا علاقہ خالی کردیا۔ اس طرح مسلمان ان کے گھروں اور زمینوں پر قابض ہوگئے۔ جب بنو نضیر اپنی جائیدادیں چھوڑ کر نکل گئے تو مسئلہ پیدا ہواکہ اس مال کی کس طرح تقسیم کی جائے بالخصوص جب منافقین نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی مال غنیمت سے حصہ دیا جائے۔ اس پر یہ فرمان نازل ہواکہ یہ مال غنیمت نہیں بلکہ اسکی حیثیت مال فئی کی ہے کیونکہ اس پر مسلمانوں نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ یعنی مسلمانوں کے حملہ کی وجہ سے یہودیوں نے اپنا گھربار نہیں چھوڑا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رسول کا دبدبہ طاری کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ جن پر چاہتا ہے اپنے رسول کو غالب کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مال بستی والوں سے اپنے رسول کو عطا کیا ہے وہ اللہ، اس کے رسول، اور اس کے رشتہ دار، یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ تقسیم کا مقصد یہ ہے کہ دولت دولت مندوں کے ہاتھوں میں محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ جو چیز رسول تمہیں عطا فرمائے اسے لے لوجس سے تمہیں منع کرے اس سے رک جاؤ اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو، یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو سخت عذاب دینے والا ہے۔ اس فرمان میں یہودیوں کے چھوڑے ہوئے مال کو مال فئی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد دشمن کا وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے حاصل ہو۔ (فئی کا معنٰی لوٹنا، واپس آنا، ہٹ جانا، رجوع کرنا ہے۔) اس ارشاد میں تین بنیادی مسائل: کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1۔ جنگ کیے بغیر جو مال حاصل ہو اس کی تقسیم درج ذیل اصول کی بنیاد پر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا حصہ : اس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ یہ مال بیت اللہ پر خرچ ہونا چاہیے۔ اللہ کے رسول کا حصہ : اللہ کے رسول کے زمانے میں اس مال سے آپ (ﷺ) اپنی گھریلو ضروریات پوری کرتے تھے۔ اسی بنا پر خیبر کے موقع پر آپ کے حصہ میں جو باغ آیا اس کی آمدنی آپ کے بعد امہات المومنین پر خرچ کی جاتی تھی اس کی تفصیل حدیث کی کتب میں موجود ہے۔ ” حضرت مالک بن اوس بن حدثان (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جس سال حضرت عمر (رض) نے حج کیا تھا آپ (ﷺ) کے پاس خیبر، فدک اور بنو نضیرتین باغ تھے جو بنو نضیر کا باغ تھا وہ آپ (ﷺ) نے ان لوگوں کو لیے رکھا ہوا تھا جن کو اسلام میں مشکلات اور تکالیف آتیں تھیں اور جو فدک کا باغ تھا اس کی آمدنی آپ (ﷺ) مسافروں پر خرچ کرتے تھے جبکہ خیبر کے باغ کی آمدنی کو آپ (ﷺ) نے تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا دو حصے مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے اس ایک حصے میں سے جو رقم بچ جاتی وہ بھی آپ (ﷺ) فقراء اور مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔“ (رواہ ابوداؤد : بَابٌ فِی صَفَایَا رَسُول اللَّہ (ﷺ) مِنَ الْأَمْوَالِ، قال البانی ھذا حدیث حسن) مستحق قریبی رشتہ داروں کا حصہ : رسول کے مستحق قریبی رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے۔ مالِ فئی سے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔ 2۔ دولت کا معاشرے میں گردش کرناضروری ہے، دولت کا لفظی معنٰی گھوم گھوم کر آنا ہے۔ عام طور پر دولت کا لفظ جن چیزوں پر بولا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ دولت کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اسے سود کی بجائے تجارت میں استعمال کرنا چاہیے، سودی نظام میں دولت کا بہاؤ سرمایہ دار کی طرف رہتا ہے اور تجارت میں مال مختلف ہاتھوں میں گھومتا ہے جس سے بیک وقت سرمایہ دار اور دوسرے لوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 3۔ تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو رسول تمہیں دے اسے پکڑلو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ اسی اصول پر سارے دین کا انحصار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو حکم اور ہدایت دی ہے وہ رسول کے ذریعے دی ہے، اس لیے حکم ہے کہ جو رسول دے اسے پکڑ لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء :80) رسول کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس کی محبت کا واحد ذریعہ ہے۔ (آل عمران :31) اس کے بغیر نہ امت متحد رہ سکتی ہے اور نہ ہی اللہ کے ہاں کسی کی نیکی قبول ہوگی، اس لیے اس اصول میں کسی قسم کے ترمیم و اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو اس کے خلاف کرے گا اسے شدید عذاب دیا جائے گا۔ (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ) (شرح السنۃ: باب رد البدع والاہواہ) ” تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔“ مسائل: 1۔ جنگ کے دوران بلامقابلہ ہاتھ آنے والے مال کو مال فئی کہتے ہیں۔ 2۔ فئی کا مال غنیمت کے اصول پر تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ وہ مملکت کی ملکیت ہوتا ہے۔ 3۔ فئی کا مال اہل بیت، غرباء، یتامیٰ اور مساکین پر خرچ ہونا چاہیے۔ 4۔ اسلامی حکومت میں ایسا نظام ہونا چاہیے جس سے دولت لوگوں کے درمیان گردش کرتی رہے۔ 5۔ اللہ کے رسول نے جو کچھ فرمایا ہے اس پر سختی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : انسان کو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے : 1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ:41) 2۔ اے عقل مندو ” اللہ“ سے ڈر جاؤ۔ (الطلاق :10) 3۔ اے عقل مند و ! اللہ سے ڈر جاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ:100) (الاحزاب :70) (النساء :1) (الاحزاب :70)