مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ
تم نے کھجور کے جو بھی درخت کاٹے یا انہیں اپنی جڑوں پر قائم رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ [٤] ہی کا حکم تھا اور یہ اس لیے ہوا کہ اللہ فاسقوں [٥] کو رسوا کرے۔
فہم القرآن: ربط کلام : مدینہ سے یہودیوں کے اخراج کا ذکرجاری ہے۔ نبی معظم (ﷺ) نے بنونضیر کا محاصرہ کرنے کے لیے کھجوروں کے کچھ درخت کاٹنے کا حکم دیا جس پر منافقین اور یہودیوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ ” محمد“ نے جہاد کے نام پر فساد فی الارض شروع کردیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے مومنو! تم نے جو کھجور کے درخت کاٹے یا جنہیں اپنی حالت پر کھڑے رہنے دیا یہ اللہ کا حکم تھا اور یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ناگزیر حالات میں دشمن کی جائیداد اور فصل کوتباہ کیا جاسکتا ہے البتہ اہم مجبوری کی صورت کے بغیر دشمن کی جائیداد اور فصل کو نقصان پہچانا جائز نہیں۔ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَمَرَاُمَرَاؤَہٗ اَن لَّا یَقْتُلُوْا اِلَّامَنْ قَاتَلَھُمْ) (فتح الباری : باب این رکز النبی (ﷺ) الرایۃ یوم الفتح) ” رسول اکرم (ﷺ) نے فوجی افسروں کو حکم دیا تھا کہ ان لوگوں سے جنگ نہیں کرنا جو تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔“ (لَا تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا وَّلَا طِفْلاً وَّلَا صَغِیْرًا وَّلَا اِمْرَاَۃً) (مشکوٰۃ: باب القتال فی الجہاد) ” بوڑھوں، نو عمر لڑکوں، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔“ (عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ وَہَذَا حَدِیثُ ابْنِ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فِی سَرِیَّۃٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ فَأَدْرَکْتُ رَجُلاً فَقَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَطَعَنْتُہُ فَوَقَعَ فِی نَفْسِی مِنْ ذَلِکَ فَذَکَرْتُہُ للنَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَقَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَقَتَلْتَہُ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّمَا قَالَہَا خَوْفًا مِنَ السِّلاَحِ قَالَ أَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ أَقَالَہَا أَمْ لاَ فَمَازَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ حَتَّی تَمَنَّیْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ یَوْمَئِذٍ قَالَ فَقَالَ سَعْدٌ وَأَنَا وَاللَّہِ لاَ أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّی یَقْتُلَہُ ذو الْبُطَیْنِ یَعْنِی أُسَامَۃَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ أَلَمْ یَقُلِ اللَّہُ ﴿وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُون الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ﴾ فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَأَنْتَ وَأَصْحَابُکَ تُرِیدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّی تَکُونَ فِتْنَۃٌ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لاإلہ إلا اللّٰہ) ” حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے ایک سریہ (جنگ) میں بھیجا ہم صبح صبح جہینہ کے علاقہ میں پہنچ گئے میں نے وہاں ایک دشمنوں کے آدمی کو پایا اس نے مجھے دیکھ کر لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ، کہا لیکن میں نے اسے قتل کردیا پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو؟ میں نے اس کی خبر نبی (ﷺ) کو دی تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کیا اس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) اس نے کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا، آپ (ﷺ) نے فرمایا : کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں، آپ (ﷺ) باربار یہی کلمات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا حضرت سعد (رض) نے کہا اللہ کی قسم میں مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک کہ اس کو اسامہ قتل کردیں ایک آدمی نے کہا کہ کیا اللہ عز وجل نے نہیں فرمایا کافروں سے اس وقت تک قتال کرو جب تک کہ فتنہ نہ رہے اور اللہ کا دین عام ہوجائے حضرت سعد (رض) نے کہا کہ ہم فتنہ مٹانے کے لئے جہاد کر رہے ہیں اور تمہارے ساتھی فتنہ پھیلانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔“ نبی (ﷺ) کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی اس بات کا خیال رکھا کہ نہ صرف آبادی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے بلکہ جانوروں اور کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچنے۔ شام پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو فوج کو رخصت کرتے وقت سپہ سالارکو ہدایات فرمائیں : ” تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے ان کو چھوڑ دینا۔ میں تم کو دس وصیتیں کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا، آبادیوں کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کو ذبح کرنے کے سوا بے وجہ نہ مارنا، باغات کو نہ جلانا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور بزدلی نہ دکھانا۔“ (تاریخ الخلفاء : سیوطی) نبی (ﷺ) کے زمانہ میں تقریبا پوراجزیرۃ العرب زیر نگیں ہوچکا تھا۔ غیر مسلم رعایا کی حیثیت سے سب سے پہلے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ان کو آپ نے جو حقوق دیے وہ اب تک تاریخ میں محفوظ ہیں جن کو من وعن نقل کیا جاتا ہے۔ اہل نجران کے ساتھ محمد (ﷺ) کا معاہدہ : (وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِیَتِھَا جَوَار اللّٰہِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدِ النَّبِیِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَمِلَّتِھِمْ وَاَرْضِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ وَغَائِبِھِمْ وَشَاھِدِھِمْ وَعِیرِھِمْ وَبَعْثِھِمْ وَاَمْثِلَتِھِمْ لَا یُغَیَّرُ مَا کَانُوْا عَلَیْہِ وَلَا یُغَیَّرُ حَقٌ مِنْ حُقُوْقِھِمْ وَاَمْثِلَتِھِمْ وَلَا یُفَتَّنَّاسُقُّفٌ مِنْ اَسْقِفِیَّتِہٖ وَلَا رَاھِبٌ مِنْ رَھْبَانِیَّتِہٖ ولاَ وَاقِہٌ مِنْ وَقَاھِیْنَتِۃٖ عَلٰی مَا تَحْتَ اَیْدیْھِمْ مِنْ قَلِیْلٍ اَوْ کَثِیْرٍ وَّلَیْسَ عَلَیْھِمْ رَھْقٌ وَلَا دَمُّ جَاھِلِیَّۃٍ وَلَا یُحْشَرُوْنَ وَلَا یُعْشَرُوْنَ وَلَا یَطَاءُ اَرْضَھُمْ جَیْشٌ مَنْ سَاَلَ مِنْھُمْ حَقًّافَبَیْنَھُمُ النِّصْفُ غَیْرَ ظَالِمِیْنَ وَلَا مَظْلُوْمِیْنَ بِنَجْرَانَ وَمَنْ اَکَلَ مِنْھُمْ رِبًا مِنْ ذِی قِبَلٍ فَذِمَّتِی مِنْہُ بَرِیئَۃٌ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْھُمْ رَجُلٌ بِظُلْمِ اَخَرَ وَلَھمْ عَلٰی مَا فِی ھَذٰہِ الصَّحِیْفَۃِ جَوَار اللّٰہِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدِالنّبِی اَبَدًا حَتَّی یَاْتِی اَمَرُ اللّٰہِ مَا نَصَحُوا واصْلَحُوا فِیْمَا عَلَیْھِمْ غَیْرَ مُکَلِّفِیْنَ شَیْئًا بِظُلْمٍ) (فتوح البلدان : کتاب الخراج، امام ابو یوسف) ” نجران اور اس کے رہنے والوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال، ان کے حاضرو غائب، ان کی مورتیاں، ان کے قافلے اور قاصد، اللہ کی امان اور اس کے رسول (ﷺ) کی ضمانت میں ہوں گے۔ ان کی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ان کے حقوق میں سے کسی حق میں مداخلت نہیں کی جائے گی، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے ہٹایانہ جائے گا، اور جو کچھ بھی ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا۔ ان کے زمانۂ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا، نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ ان پر عشر لگایا جائے گا اور نہ اسلامی فوج ان کے علا قے کو پامال کرے گی۔ ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا تو اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نہ انہیں ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا۔ ان میں سے جو شخص سود کھائے گا وہ میری ضمانت سے بری ہے۔ اس صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے بارے میں اللہ کی امان اور محمد (ﷺ) کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دوسرا حکم نازل ہو۔ جب تک یہ لوگ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ کیے ہوئے معاہدہ کی پابندی کریں گے ان کو جبراً کسی بات پر مجبور نہ کیا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے محاصرے میں آپ (ﷺ) کو حکم دیا کہ ان کے درخت کاٹ دیئے جائیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں بھی ذلیل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کودنیا میں ذلیل کیا : 1۔ یہودی دنیا میں ذلیل اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ (البقرۃ:85) 2۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے والے دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے۔ (البقرۃ:114) 3۔ کفار کو دنیا وآخرت میں شدید عذاب ہوگا۔ (الرعد : 34، آل عمران :56) 4۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن اور فسادی دنیا وآخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ (المائدۃ:33) 5۔ بچھڑے کے پجاری دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (الاعراف :152) 6۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ :74) (النور :19) (الزمر :26)