بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الحشرکا تعارف : اس سورت کا نزول مدینہ طیبہ میں ہوا۔ یہ سورت تین رکوعات اور چوبیس (24) آیات پر محیط ہے۔ مسبّحات میں یہ دوسری سورت ہے اس کا پہلا فرمان یہ ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کی ہر چیز ” اللہ“ کی تعریف کر رہی ہے وہ اللہ ہر اعتبار سے غالب حکمت والا ہے۔ اسی غالب آنے والے نے مدینہ سے ان کافروں کو نکلنے پر مجبور کیا جو اپنی افرادی قوت اور مضبوط قلعوں کی بنیاد پر مدینہ سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ یہودی کئی صدیوں سے حجاز بلخصوص مدینہ کے علاقے میں اپنا تسلّط جمائے ہوئے تھے نبی (ﷺ) مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو بقائے باہمی کے اصول پر یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ خارجی خطرات کی صورت میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مدینہ کا دفاع کریں گے لیکن انہوں نے غزوہ بدر سے لے کر مکہ فتح ہونے تک ہر بار مشرکین مکہ کا پورا پورا ساتھ دیا۔ نبی (ﷺ) غزوہ خندق سے فارغ ہوئے تو آپ (ﷺ) نے یہودیوں کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا اور انہیں مہلت دی کہ اتنے دنوں میں اپنے معاملات سمیٹ لو اور جس قدر سامان اٹھا سکتے ہو اسے لے کر نکل جاؤ لیکن منافقوں کی حوصلہ افزائی پر یہودیوں کے قبیلہ بنوقریظہ نے نکل جانے سے انکار کردیا۔ اس پر نبی (ﷺ) نے ان کے علاقے کی طرف پیش قدمی فرمائی اور ان کے کچھ باغ کاٹنے کا حکم دیا جس پر انہوں نے پروپگنڈہ کیا کہ یہ جہاد کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جہادی ضرورت کے لیے اگر فصل کاٹنا پڑے تو یہ فساد نہیں بلکہ جہاد کے لیے ضروری ہے اس کے بعد جہاد میں حاصل ہونے والے مال فیٔ کی تقسیم کا اصول بیان فرمایا اس اصول میں یہ اصول بھی بتلا دیا گیا کہ مسلمانوں کا نظام معیشت ایسا ہونا چاہیے جس میں دولت کا بھاؤ غریب اور مسکین کی طرف رہے۔ سورت کے دوسرے رکوع میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اے مسلمانوں تم کفار کو متحد سمجھتے ہو یہ بظاہر ایک ہیں لیکن ان کے خیالات اور مفادات الگ الگ ہیں اس لیے ان کے ظاہری اکٹھ سے خوف زدہ نہیں ہونا۔ سورت کے آخری رکوع میں قرآن مجید کی عظمت اور تاثیر کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کس قدر تاثیر اور عظمت والا ہے اگر یہ پہاڑ پر اتارا جاتا تو پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔