وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا
اور جن عورتوں کو تمہارے باپ نکاح میں لا چکے ہیں ان سے نکاح نہ کرو مگر پہلے جو ہوچکا [٣٦] سو ہوچکا۔ یہ بڑی بے حیائی اور بیزاری کی بات ہے اور برا چلن ہے
فہم القرآن : (آیت 22 سے 23) ربط کلام : عورت کی عفت و تکریم کے تحفظ‘ گھر کے ماحول میں آزادی کی نعمت اور باہمی شرم و حیا اور حد درجہ احترام کے لیے کچھ رشتے مستقل طور پر اور چند رشتوں کو حسد وبغض سے بچانے اور تقدس کے تحفظ کی خاطر مخصوص مدّت کے لیے حرام قرار دیا۔ مستقل طور پر حرام کردہ رشتے درج ذیل ہیں : 1۔ ماں‘ دادی‘ نانی‘ اوپر تک۔ 2۔ بیٹیاں‘ پوتیاں نیچے تک اور نواسیاں۔ 3۔ سگی بہنیں۔ 4۔ باپ یا ماں کی طرف سے یعنی سوتیلی بہنیں جنہیں علاتی اور اخیافی بہنیں کہا جاتا ہے۔ 5۔ پھوپھیاں۔ 6۔ خالائیں‘ خواہ یہ سگی ہوں یا اخیافی یا علاتی۔ 7۔ بھتیجیاں اور ان کی بیٹیاں۔ 8۔ بھانجیاں اور ان کی بیٹیاں۔ 9۔ رضاعی مائیں۔ 10۔ رضاعی بہنیں اور رضاعت کی بنیاد پر وہ سب رشتے حرام ہیں جو رشتۂ نسب کی بنیاد پر حرام ہیں۔ 11۔ ساس اور سالیاں جب تک ان کی بہن نکاح میں ہو۔ 12۔ سوتیلی بیٹیاں‘ جن کی ماں کے ساتھ خلوت ہوچکی ہو۔ اگر اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو تو پھر اس کی پہلی بیٹیوں کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ 13۔ حقیقی بیٹے کی بیوہ یعنی بہو سے نکاح حرام ہے۔ 14۔ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ 15۔ تمام شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أَنَّھَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ عَمَّھَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ یُسَمّٰی أَفْلَحَ اسْتَأْذَنَ عَلَیْھَا فَحَجَبَتْہُ فَأَخْبَرَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ لَھَا لَاتَحْتَجِبِیْ مِنْہُ فَإِنَّہٗ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ) [ رواہ مسلم : کتاب الرضاع، باب تحریم الرضاعۃ من ماء الفحل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ان کا رضاعی چچا جس کا نام افلح تھا اس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اس سے پردہ کیا پھر رسول اللہ (ﷺ) کو یہ واقعہ بتلایا آپ نے فرمایا اس سے پردہ نہ کر کیونکہ جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں رضاعت کے سبب بھی حرام ہیں۔“