قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
اللہ نے یقیناً اس عورت کی بات سن لی [١] ہے جو اپنے خاوند کے بارے میں (اے نبی) آپ سے جھگڑ رہی ہے اور اللہ کے حضور شکایت کر رہی ہے۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے
فہم القرآن: ربط سورت : سورۃ الحدید کے آخر میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ فضل و کرم صرف ” اللہ“ کے ہاتھ اور اس کے اختیار میں ہے۔ سورۃ المجاد لہ کی ابتدا ایسے واقعہ سے ہورہی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ واقعتا فضل وکرم اور اختیارات کا مالک صرف ایک اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک بی بی نبی (ﷺ) کو اپنا دکھڑا سنا رہی تھی تو آپ (ﷺ) کے پاس اس وقت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اس بی بی پر اپنا فضل کیا اور اس کا مسئلہ حل فرما دیا۔ مدینہ طیبہ میں اوس قبیلے کے سردار عبادہ بن صامت (رض) کی بھاوج جو اوس بن صامت (رض) کی بیوی تھی اس کے خاوند اوس بن صامت (رض) نے طیش میں آکر اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ (رض) کو یہ الفاظ کہے۔ ” اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ“ ” تو مجھ پر ایسے ہی حرام ہے جس طرح میری ماں مجھ پر حرام ہے۔“ اوس بن صامت (رض) کے یہ الفاظ کہنے تھے کہ خولہ (رض) پر قیامت ٹوٹ پڑی کیونکہ اسلام سے قبل جو شخص اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہتا اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہوجاتی اور رجوع کی کوئی شکل باقی نہیں رہتی تھی۔ خولہ بنت ثعلبہ (رض) روتی ہوئی نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنا دکھڑا سناتے ہوئے باربار کہتی کہ اللہ کے رسول (ﷺ) ! میں جاؤں تو کدھر جاؤں۔ آپ ضرور اس مسئلے کا حل فرمائیں۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا بی بی! میرے پاس اس مسئلے کا ابھی تک کوئی حل موجود نہیں ہے۔ خولہ فریاد کرتی ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ) ! میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں ان کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی۔ آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ بی بی ! ابھی تک آسمان سے میرے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نازل نہیں ہوا۔ یہ سنتے ہی حضرت خولہ کی ہچکی بندھ گئی۔ حضرت خولہ (رض) کانپتے ہوئے وجود اور لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ واپس پلٹتی ہے۔ کچھ مفسرین نے لکھا ہے جونہی خولہ آپ (ﷺ) کی مجلس سے اٹھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر وحی نازل فرمائی کہ ” اللہ“ نے اس عورت کی فریاد سن لی ہے جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے تکرار کر رہی تھی اور بار بار اللہ کے حضور فریاد کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور اس کی گفتگو کو پوری طرح سن رہاتھا، یقین جانو! کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کو دیکھنے والا ہے۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ (رض) کا مقام : اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کی نگاہوں میں حضرت خولہ کا مقام اتنا بلند ہوا کہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) اپنے دور حکومت میں قریش کے چند سرداروں کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں خولہ بنت ثعلبہ (رض) نے کسی مسئلے کے لیے انہیں روکا۔ حضرت عمر (رض) نگاہیں جھکاکر کھڑے ہوگئے، حضرت خولہ (رض) نے کہا کہ اے عمر (رض) ! ایک وقت وہ تھا جب لوگ تجھے عمر کہتے تھے۔ اب تم امیر المومنین بن چکے ہو۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بی بی آپ نے سچ فرمایا حضرت خولہ (رض) نے فرمایا کہ اے امیر المومنین ! ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہناچاہیے خولہ اور امیرالمومنین کی گفتگو قدرے طویل ہوئی تو آپ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ عجب عورت ہے، امیر المومنین کوسر بازار کھڑے کیے ہوئے ہے۔ حضرت عمر (رض) نے یہ الفاظ سنے تو فرمایا خاموش ہوجائیں ! یہ وہ عورت ہے جس کی بات کو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سنا تھا۔ اس لیے میں کون ہوتا ہوں کہ اس کی بات نہ سنوں۔ حضرت عمر (رض) نے خولہ کا مسئلہ حل فرمایا اور اجازت لے کر آگے چل دئیے۔ (رواہ احمد : مسند عبداللہ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی بات کو سنتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت خولہ کی فریاد کو سنا اور ہمیشہ کے لیے ظہار کے مسئلہ کا حل فرمادیا۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ لوگوں کی فریاد سننے والا اور انہیں ہر حال میں دیکھنے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ( المائدۃ:98) 2۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو سب کچھ اللہ کو معلوم ہے۔ ( المائدۃ:99) 3۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے۔ ( المؤمن :19) 4۔ جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے سب ” اللہ“ کو معلوم ہے اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ ( طٰہٰ:110) 5۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات :1) 6۔ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں وہ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (الشوریٰ:11)