لِّئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
تاکہ اہل کتاب یہ نہ سمجھ [٥٣] بیٹھیں کہ مسلمان اللہ کے فضل کا کچھ بھی حصہ حاصل نہیں کرسکتے۔ حالانکہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائیں گے انہیں انتباہ کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔ قرآن مجید میں اہل کتاب کے الفاظ صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاں بھی اہل کتاب سے مراد دونوں فریق ہیں جن کی اکثریت حسد اور بغض کی بنا پر نبی آخر الزمان (ﷺ) پر ایمان نہیں لاتی بالخصوص یہودیوں کی کیفیت یہ تھی اور ہے کہ وہ کسی صورت بھی نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اہل کتاب کی کثیر تعداد چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے ایمان سے پھیر دیا جائے حالانکہ ان کے سامنے حق واضح کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے حسد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ( البقرۃ:109) اہل کتاب میں بالخصوص یہودیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد کے علاوہ کوئی شخص نبوت کا حقدار نہیں ہوسکتا، انہیں اس کا جواب دیا گیا کہ کسی کو نبوت عطا کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اس فضل سے پہلی مراد نبوت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہے اس میں کسی کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ عظیم فضل کا مالک ہے۔ یہ حقیقت بتلانے کا ایک مقصد یہ ہے کہ خاص طور پر اہل کتاب کے کان کھل جائیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے اور کوئی شخص بھی اللہ کی ذات، صفات اور اختیارات میں رائی کے دانے کے برابر اختیار نہیں رکھتا۔ جب کوئی شخص اپنے یا کسی کے بارے میں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا تو اسے دوسرے شخص پر حسد نہیں کرنا چاہیے۔ جو شخص حسد و بغض سے بچ کر حقیقت پر غور کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ ہدایت کا راستہ کھول دیتا ہے۔ ﴿وَ اِذَا جَآءَ تْہُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ﴾ (الانعام :124) اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا اللہ زیادہ جانتا ہے کہ وہ کس کو اپنے پیغام کا حامل بنائے، عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیے اللہ کے ہاں ذلّت پہنچے گی اور سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ ﴿یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (آل عمران :74) ” وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص کرلے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ” اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ“ ) (رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ) ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (ﷺ) دعا کرتے اے اللہ! جو چیز تو عطاء فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا اور نفع نہیں دے سکتا۔“ مسائل: 1۔ ” اللہ“ کے اختیارات میں اہل کتاب یا کسی اور کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے اپنا فضل فرمائے۔ ہر قسم کا فضل صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے : 1۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران :89) 2۔ بے شک زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبہ :116) 3۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ:107) 4۔ ہر قسم کی خیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( آل عمران :73) 5۔ اللہ ہر نقص سے پاک ہے اور ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ( یٰس :83)