يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا کرے [٥١] گا اور ایسا نور [٥٢] بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہیں معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نافرمان ٹھہری۔ اے ایمان والو! تمہیں ” اللہ“ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ اے ایمان والو! ہر حال میں ” اللہ“ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ! ” اللہ“ تمہیں دوگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے روشنی پیدا کرے گا جس میں تم زندگی بسر کر وگے اور بتقاضا بشریت جو تم سے غلطیاں ہوں گی انہیں معاف فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ یہاں ایمان داروں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں رسول اکرم (ﷺ) پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس خطاب کے مفسرین نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ” اٰمِنُوْا“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اس لیے انہیں اے ایمان والو کہہ کر خطاب کیا معنٰی یہ ہے کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ہو اسی طرح نبی آخر الزمان (ﷺ) پر ایمان لاؤ! جس کا اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے دوگنا اجر عطا فرمائے گا۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان مسلمانوں کو خطاب کیا ہے جو ایمان لانے کے باوجود اس کے تقاضے پورے نہیں کرتے انہیں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کے تقاضے پورے کرو! اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہیں دوگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہاری غلطیاں معاف کرتے ہوئے تمہارے لیے روشنی کا بندوبست کرے گا جس میں تم چلو گے۔ روشنی سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم اور خداداد بصیرت ہے جو شخص ایمان کے تقاضے پورے کرتا اور ” اللہ“ سے ڈر کر زندگی بسر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خاص بصیرت اور توفیق عطا کرتا ہے جس بنا پر وہ نیکی اور برائی حلال اور حرام، ظلم اور عدل میں تمیز کرتا ہے اسی طرح روشنی میں چل کر وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ ﴿یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الانفال :29) ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں حق وباطل میں فرق کرنے کی قوت دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا۔ تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بڑے فضل والاہے۔“ (عن أَبی بُرْدَۃَ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (ﷺ) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ) (رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ) ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی سے نبی مکرم (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا : تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت کیا جائے گا، ان میں ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا پھر وہ اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا۔ دوسرایہود و نصاریٰ میں وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (ﷺ) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ ( عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ إِنِّی أُبْدِعَ بِیْ فَاحْمِلْنِی فَقَالَ مَا عِنْدِیْ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللّٰہِ أَنَا أَدُلُّہُ عَلٰی مَنْ یَحْمِلُہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہٖ) (رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل اعانۃ الغازی) ” حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں ایک شخص نبی کریم (ﷺ) کے پاس آیا اور کہا میرے پاس سواری نہیں ہے مجھے سواری عنایت کیجیے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا : میرے پاس بھی سواری نہیں ہے دوسرے آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول! میں اس کو اس شخص کی طرف رہنمائی کرتا ہوں جواسے سواری دے گا۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : جس نے کسی کی بھلائی کی طرف رہنمائی کی تو اسے بھی نیکی کرنے والے کی طرح ہی اجر دیا جائے گا۔“ ﴿ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ (التحریم :8) ” جس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگون کو جو اس پر ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ دعا کر رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ ( اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّسَارِیْ نُوْرًا وَّفَوْقِیْ نُوْرًا وَّتَحْتِیْ نُوْرًا وَّاَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا وَّزَادَ بَعْضُھُمْ وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا وَّذَکَرَ وَعَصَبِیْ وَلَحْمِیْ وَدَمِیْ وَشَعْرِیْ وَبَشَرِیْ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَّھُمَا ” وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَّاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا وَّفِیْ اُخْریٰ لِمُسْلِمٍ اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْرًا ) (رواہ البخاری : باب الدُّعَاءِ إِذَا انْتَبَہَ باللَّیْلِ) الٰہی! میرے دل، میری آنکھوں، میرے کانوں، میرے دائیں، میرے بائیں، میرے اوپر، میرے نیچے، میرے سامنے، میرے پیچھے اور مجھے ہر طرف سے روشنی عطا فرما اور دوسری روایات میں ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ میری زبان، میرے اعصاب، میرا گوشت پوست، میرے خون اور بال حتیٰ کہ میرے سارے جسم کو منور فرمادے۔ (بخاری و مسلم) دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ میرے دل میں بھی نور پیدا کر دے اور نور کو میرے لیے اور زیادہ کر دے۔ مسلم کی دوسری حدیث میں ہے ” اے اللہ مجھے نور عطا فرما۔“ مسائل: 1۔ ایمانداروں کو ہر حال میں ” اللہ“ سے ڈر کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ 2۔ ایمانداروں کو ایمان کے تقاضے پورے کرنے چاہیے۔ 3۔ اہل کتاب میں جو شخص نبی آخر الزمان (ﷺ) پر ایمان لائے گا اسے دوگنا اجر عطا کیا جائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کے لیے ایک روشنی پیدا کرتا ہے جس میں وہ چل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور متقین کی غلطیاں معاف کردیتا ہے ۔ 6۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے فوائد : 1۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران :198) 2۔ اللہ سے خلوت میں ڈرنے والے کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ (یٰس :11) 3۔ ایمان لانے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ (یونس : 63، 64) 4۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ (النور :52)