الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
جو خود بھی بخل کرتے اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور جو منہ موڑے تو اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اور وہ اپنی ذات میں محمود ہے
فہم القرآن: ربط کلام : جو لوگ کوئی چیز کھو بیٹھنے پر حد سے زیادہ افسوس کرتے ہیں اور جب انہیں کچھ میسر آتا ہے تو اس پر اتراتے ہیں ایسے لوگوں کی اکثریت بخل میں مبتلا ہوا کرتی ہے۔ اس لیے یہاں بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ مال کے چھن جانے پر حد سے زیادہ دل گرفتہ ہونا اور اس کے حاصل ہونے پر اپنے آپ سے باہر ہوجانا اخلاقی کمزوریاں ہیں، ان کمزوریوں میں ایک کمزوری بخل ہے جس کا پہلا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے دل میں استغنٰی اور اللہ پر توکل ختم ہوجائے تو آدمی نہ صرف خود بخل کا شکار ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اچھے کاموں پر خرچ کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔ یہاں تک اس کا بس چلتا ہے وہ عزیز واقارب اور اپنے احباب کو صدقہ کرنے سے روکتا ہے کیونکہ وہ اسے مال ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ نبی (ﷺ) کے دور میں منافقوں کی یہی حالت تھی۔ منافق نہ صرف خود صدقہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے گردوپیش کے لوگوں کو صدقہ کرنے سے روکتے تھے۔ اس کے کچھ منفی اثرات نئے مسلمانوں پر پڑ رہے تھے جس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ جو لوگ بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو صدقہ کرنے سے روکتے ہیں یا ان کے لیے بخل کا ماحول پیدا کرتے ہیں انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے تو استطاعت رکھنے کے باوجود خرچ نہیں کرتے ان کا انجام برا ہوگا۔ ﴿وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرًا لَّہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاث السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ (آل عمران :180) ” جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اپنے لیے بخل کو بہتر نہ سمجھیں بلکہ بخل کرنا ان کے لیے برا ہے عنقریب قیامت کے دن بخل والی چیز ان کے گلے میں ڈال دی جائے گی۔ اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی ملکیت ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلَ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ أَیْدِیْھِمَا إِلٰی ثَدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ حَتّٰی تَغْشٰی أَنَامِلَہٗ وََتَعْفُوَ أَثَرَہٗ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ (رض) فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ بِإِصْبَعِہٖ ھٰکَذَا فِیْ جَیْبِہٖ فَلَوْ رَأَیْتَہٗ یُوَسِّعُھَا وَلَا تَتَوَسَّعُ) (رواہ البخاری : کتاب اللباس، باب جیب القمیص من عند الصدر وغیرہ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے جو ہاتھ، سینے اور گلے تک لوہے کی قمیض پہنے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا صدقہ کرتا ہے تو اس کی قمیض کشادہ ہوجاتی ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتی ہے اور اس کے قدموں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ جب بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی قمیض اس سے چمٹ جاتی ہے یہاں تک ہر حلقہ اپنی جگہ پر کس جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (ﷺ) کو دیکھا آپ اپنی انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس کو کھولنا چاہے گا لیکن وہ نہیں کھلے گی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ غنی اور صاحب تعریف ہے۔ 2۔ کچھ لوگ خود بخیل ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی بخل پر آمادہ کرتے ہیں۔ 3۔ جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود اللہ کی راہ ہیں مال خرچ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن: بخل کی سزا : 1۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیجئے۔ (التوبہ :34) 2۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (لہمزہ :3) 3۔ بخیل کے مال کے ذریعے ہی اسے سزادی جائے گی۔ (التوبہ :35) 4۔ مالدار اپنے لیے بخل کو اچھا خیال کرتے ہیں حالانکہ بخل کرنا ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران :180)