مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمہارے نفوس کو پہنچتی ہے، وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب [٣٨] میں لکھی ہوئی ہے (اور) یہ بات بلاشبہ اللہ کے لئے آسان [٣٩] کام ہے
فہم القرآن: (آیت 22 سے 23) ربط کلام : جنت کا حصول مشکلات کا سامنا کیے بغیر ممکن نہیں اس لیے مشکلات کی حقیقت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقیقت حال بتانے اور اسے تسلی دینے کے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ تم پر اور زمین پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر ” اللہ“ ہی اسے بھیجنے والا ہے۔ جسے اس نے اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھا ہے۔ مصیبت نازل کرنا اور اسے ٹالنا صرف اور صرف ” اللہ“ کے اختیار میں ہے اور اس نے انسان کی تخلیق سے پہلے اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے۔ مصیبت نازل کرنا اور اس کو ٹالنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل نہیں اس کے لیے کسی کام کو مشکل خیال کرنا ہی بہت بڑا کفر ہے۔ کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ جو تم سے کھو جائے اس پر حد سے زیادہ غم نہ کرو اور جو تمہیں عطا کیا جائے اس پر فخر وغرور نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ فخرو غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ﴿وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفَ والْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ: 155، 156) ” اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے دشمن کے ڈر، بھوک، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے، ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجئے۔ انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یقیناً ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور بلاسبہ ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔“ (عَنْ أم سلمۃ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَا مِنْ مُّسْلِمٍ تُصِیْبُہُ مُصِیْبَۃٌ فَیَقُوْلُ مَا اَمَرَہُ اللّٰہُ بِہٖ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ” اَللّٰھُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْھَا“ اِلَّا اَخْلِفَ اللّٰہُ لَہُ خَیْرًا مِّنْھَا فَلَمَّا مَاتَ اَبُوْ سَلَمَۃَ قُلْتُ اَیُّ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرٌ مِّنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اَوَّلُ بَیْتٍ ھَاجَرَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) ثُمَّ اِنِّیْ قُلْتُھَا فَاَخْلَفَ اللّٰہُ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ)) (رواہ مسلم : باب ما یقال عند المصیبۃ) حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا : جو مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو وہ وہی کلمے کہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ” بلاشبہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں آخراسی کی طرف جانے والے ہیں، بارِالہا! میری اس مصیبت میں مجھے اجر سے نواز اور مجھے نعم البدل عطا فرما اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر بدلہ عطا کرے گا۔ آپ (رض) فرماتی ہیں جب میرے خاوند ابوسلمہ (رض) فوت ہوگئے تو میں نے سوچا کہ ابوسلمہ سے اچھا خاوند مسلمانوں میں کون ہوگا؟ یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول (ﷺ) کے ساتھ ہجرت کی۔ اس سوچ کے باوجود میں یہ دعا پڑھتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بدلے رسول کریم (ﷺ) عطا فرما دئیے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے اِ ذن کے بغیر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر لکھ رکھی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر کام آسان ہے۔ 4۔ مصیبت آنے پرواویلا اور بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ 5۔ نعمت ملنے پر فخروغرور نہیں کرنا چاہیے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ فخروغرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ فخر وغرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا : 1۔ اللہ تکبر کرنے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان :18) 2۔ جو ” اللہ“ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید :23) 3۔ یقیناً اللہ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :36) 4۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل :37) 5۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جودنیا میں تکبر وفساد نہیں کرتے۔ (القصص :83)