يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث [٣٢] بن بیٹھو۔ اور نہ ہی انہیں اس لیے روکے رکھو کہ جو مال (حق مہر وغیرہ) تم انہیں دے چکے ہو اس کا کچھ حصہ اڑا لو۔ اِلا ّ یہ کہ وہ صریح بدچلنی [٣٣] کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے [٣٤] زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اللہ نے اس میں بہت [٣٤۔ ١] بھلائی رکھ دی ہو
فہم القرآن : ربط کلام : بدکاری کی سزا اور اس کی توبہ کے بیان سے پہلے عورتوں کے حقوق کا ذکر ہو رہا تھا اب اس کا تسلسل بحال ہوتا ہے۔ عورتوں کے بارے میں عربوں کی جہالت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ وہ عورت کو منڈی کا مال سمجھتے تھے۔ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہوجاتا تو نہ صرف وہ اپنی وراثت سے محروم ہوتی بلکہ مرنے والے کے وارث اس عورت کو اپنی ملک سمجھتے ہوئے اس سے من مرضی کا سلوک کرتے جس کی چار صورتیں تھیں۔ 1۔ بیوہ کو جبراً نکاح میں لینا یہاں تک کہ بعض قبائل میں لوگ اپنی سوتیلی والدہ کو بیوی بنا لیا کرتے تھے۔ 2۔ عورت کو طلاق دینے کے باوجود آگے نکاح کرنے سے روکنا۔ 3۔ عورت کی جائیداد اور حق مہر پر قبضہ کرنا۔ 4۔ ذاتی اور قومی عصبیت کی بنیاد پر بیوہ یا مطلقہ کو نکاح سے روکنا۔ یہاں صرف ایک صورت میں عورت کا حق مہر لینے کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی انتہاء درجے کی گستاخ ہو یا اس نے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو تو ایسی صورت میں خاوند کو حق ہے کہ وہ سزا کے طور پر اس کا حق مہر ضبط کرلے۔ اس آیت میں دوسرا حکم یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ان میں اگر کوئی عادت تمہیں پسند نہیں تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بیوی کی وجہ سے تمہیں خیر کثیر عطا فرمائے۔ خیر کثیر سے مراد نیک اولاد، بیوی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ رزق میں برکت اور عزت میں اضافہ فرمادے اور بیوی خاوند کی خیرخواہ ہو اور اپنی اولاد کی تربیت کا خصوصی خیال رکھنے والی ہو۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اسْتَوْصُوْا بالنِّسَاءِ فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَیْءٍ فِی الضِّلَعِ أَعْلَاہُ فَإِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہٗ کَسَرْتَہٗ وَإِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوْا بالنِّسَاءِ) [ رواہ البخاری : کتاب أَحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم وذریتہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کیونکہ یہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے ٹیڑھی پسلی اوپر والی ہوتی ہے اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو اسے توڑ دے گا اور اگر تو اسے چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَحَفِظَتْ فَرْجَھَا وَأَطَاعَتْ زَوْجَھَا قِیْلَ لَھَاادْخُلِی الْجَنَّۃَ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شِئْتِ) [ مسند احمد : کتاب منسد العشرۃ المبشرین بالجنۃ، باب حدیث عبدالرحمن بن عوف] ” حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب عورت پانچ نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عفت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا کہ تو جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجا۔“ مسائل : 1۔ عورتوں کی وراثت پر قبضہ کرنا حرام ہے۔ 2۔ عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا : 1۔ بیویوں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ (النساء :19) 2۔ بیویوں کو تکلیف نہ دی جائے۔ (الطلاق :6) 3۔ حق زوجیت ادا کیا جائے۔ (النساء :3) 4۔ حق مہر خوشی سے ادا کرنا چاہیے۔ (النساء :4) 5۔ حق مہر واپس نہیں لینا چاہیے۔ (النساء :20) 6۔ بچے کی وجہ سے ماں‘ باپ کو تکلیف نہ دی جائے۔ (البقرۃ:233)