أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کے لئے ایسا وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل پسیج [٢٨] جائیں؟اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے [٢٩] اور (آج) ان میں سے اکثر فاسق ہیں
فہم القرآن: (آیت 16 سے 17) ربط کلام : منافقین کا انجام بتلانے کے بعد دین اسلام میں نئے داخل ہونے والے مسلمانوں سے خطاب۔ اسی سورت کی آیت 10میں نبی کریم (ﷺ) کے دور میں ایمان لانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جنہوں نے مکہ فتح ہونے سے پہلے اللہ کی راہ میں قتال اور خرچ کیا وہ الفتح کے بعد ایمان لانے، قتال کرنے اور صدقہ کرنے والوں سے اعلیٰ ہیں۔ الفتح کا معنٰی آیت 10کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے۔ فتح مکہ کے بعد ایسے مسلمان بھی تھے جو اپنے ایمان لانے کے ابتدائی دور میں اس معیار تک نہیں پہنچے تھے جو قرآن مجید کا مطلوب ہے اس لیے ان ایمانداروں کو بالخصوص ارشادہوا کہ کیا ان ایمانداروں کے لیے وہ وقت نہیں آیا جب ان کے دل اللہ کی یاد سے لرز جائیں اور جو حق ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اس کے سامنے پوری طرح مطیع ہوجائیں۔ انہیں حکم ہوا کہ اے ایماندارو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے جب ان پر طویل مدت گزری تو ان کے دل اللہ اور اس کی کتاب کے بارے میں سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت نافرمان تھی اور یادرکھو! اللہ ہی وہ ذات ہے جو زمین کے مردہ ہونے کے بعد اسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے ارشادات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔” اُوْتُوا الْکِتٰبَ‘‘سے مراد عیسائی اور یہودی ہیں۔ ایک مدت گزرنے کے بعد ان کی بد عملی اور بے حسی کا عالم یہ تھا اور ہے نہ انہیں اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی تورات اور انجیل کی نصیحتیں ان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ عیسائی اور یہودی اپنی کتابوں کے حوالے سے یہ جانتے ہیں کہ آخری نبی محمد رسول اللہ (ﷺ) ہوں گے اور وہ عربی النسل ہونے کے ساتھ مکہ معظمہ میں مبعوث کیے جائیں گے اور لوگوں کو وہی دعوت دیں گے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے یہ حقیقت جاننے کے باوجود عیسائیوں اور یہودیوں کی غالب اکثریت اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حق کے ساتھ تعصب اور دنیاوی مفادات مقدم رکھتے ہیں۔ ایمانداروں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو ایک مدت گزرنے کے بعد اپنے رب سے غافل ہوئے اور تورات اور انجیل کو فراموش کربیٹھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے حالات سے آگاہ ہونے کے باوجود آج مسلمانوں کی غالب اکثریت کا وہی حال ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں کا حال دکھائی دیتا ہے۔ عیسائی اور یہودی بھی دنیا کی خاطر شقی القلب ہوئے اور مسلمان بھی دنیا کے مفاد کے لیے اللہ اور اس کے رسول سے بے اعتنائی کا شکار ہورہے ہیں۔ اے مسلمانو! یادرکھو! کہ اللہ ہی مردہ زمین کو زندہ کرنے والاہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے زمین کے حوالے سے اپنی قدرت کی عظیم نشانی کا ذکر کرتے ہوئے دو خوشخبریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 1۔ جس طرح ویران اور سنسان زمین بارش کے بعد تروتازہ اور زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ کی یاد اور اس کی کتاب کی پیروی سے مردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں۔ جس طرح بارش کے بعد زمین سے نباتات اگتی ہیں اور اس سے زمین پر ہریالی چھا جاتی ہے اسی طرح اللہ کی آیات اور قرآن مجید کی تلاوت سے ایمان زندہ ہوتا ہے اور مسلمان کے نیک اعمال میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی طبیعت پر نیکیوں کی ایک بہار آتی ہے۔2۔ جس طرح بارش کے بعد مردہ زمین زندہ ہوتی ہے اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ضعف کو قوت میں تبدیل کرے گا جس سے دنیا میں امن و سکون پیدا ہوگا اور نیکی کی فضا قائم ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو گناہ کی سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ ” ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول (ﷺ) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گئے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے رسول (ﷺ) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔“ (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ، قال البانی ھذا حدیث حسن صحیح) مسائل: 1۔ ایمانداروں کو اللہ کے ذکر اور کتاب اللہ کی پیروی کرنی چاہیے 2۔ مسلمانوں کو یہود ونصارٰی کا انداز اور کردار اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ کی یاد اور قرآن مجید کی تلاوت سے غفلت کرنے پر انسان کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ 4۔ یہود ونصارٰی کی غالب اکثریت نافرمان لوگوں پر مشتمل ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اس لیے اپنے ارشاد ات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ عقل سے کام لیں۔ تفسیر بالقرآن: دل کی سختی اور برے شخص کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے دل سخت ہوتا ہے۔ (البقرۃ:74) 2۔ عہد شکنی کی وجہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ (المائدۃ:13) 3۔ اللہ کی یاد سے غافل ہونے والوں کے لیے جہنم ہے۔ ( الزمر :22)