يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
منافق مومنوں کو پکار کر کہیں گے :’’کیا ہم (دنیا میں) تمہارے ساتھ [٢٣] نہ تھے؟‘‘ (مومن) کہیں گے، کیوں نہیں، لیکن تم نے تو خود اپنے آپ کو فتنہ [٢٤] میں ڈالا۔ اور (موقع کی) انتظار کرتے رہے اور شک [٢٥] میں پڑے رہے اور جھوٹی آرزوئیں تمہیں دھوکہ میں ڈالے رہیں تاآنکہ اللہ کا حکم آپہنچا [٢٦] اور (اس وقت تک) بڑا دھوکہ باز (شیطان) اللہ کے بارے میں تمہیں دھوکا ہی دیتا رہا
فہم القرآن: (آیت 14 سے 15) ربط کلام : منافقین کی جنتیوں سے آخری فریاد۔ جب جنتی منافقین سے یہ کہیں گے کہ اپنے پیچھے جاکر روشنی تلاش کرو تو منافق کہیں گے کیا دنیا میں ہم تمہارے ساتھ نہیں رہتے تھے؟ جنتی جواب دیں گے کیوں نہیں! تم ہمارے ساتھ رہتے تھے لیکن تم نے اپنے آپ کو دھوکے میں رکھا، اسلام کے بارے میں شک میں مبتلا رہے، ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منتظر رہے کہ کب اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا۔ ان آرزؤں اور شیاطین نے تمہیں ہمیشہ دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا۔ تم یہ کام دنیا کے فائدے کی خاطر منافقت کرتے تھے لہٰذا آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ آج کفار اور تم سے نہ کسی قسم کا فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ تم عذاب سے نجات پاسکو گے۔ لہٰذا تمہارا ٹھکانہ آگ ہے جس کے تم سزاوار ہو۔ رہنے کے اعتبار سے یہ بدترین اور اذّیت ناک جگہ ہے۔ اس موقع پر جنتی لوگ منافق عورتوں اور مردوں کو پانچ باتیں ارشاد فرمائیں گے۔ 1۔ دنیا میں تم نے منافقت کر کے اپنے آپ کو لامتناہی مصیبت میں ڈال لیا ہے۔2۔ دنیا میں تم ہمارے نقصان کے منتظررہتے تھے لہٰذا آج تم ناقابل برداشت اور لامحدود نقصان میں مبتلا رہو گے۔3۔ دنیا میں تم دین اسلام کے بارے میں شک کا شکار رہے اور اب اس شک کی ہمیشہ سزا پاؤ گے۔4۔ دنیا میں شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان کے فرامین میں دھوکہ میں رکھا اس لیے آج اس دھوکے کی سزا پاتے رہو۔ 5۔ دنیا میں تم اپنے مفاد کی خاطر دین اور مسلمانوں کا نقصان چاہتے اور کرتے تھے لہٰذا تم جہنم کے لائق ہو، جو تمہارے رہنے کے لیے بدترین جگہ ہے، تم دنیا کے مفاد کی خاطر اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر حقیقی ایمان نہ لائے اس لیے آج تم سے کسی قسم کا فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِہِمْ مِّلْ ءُ الْاَرْضِ ذَہَبً وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْن﴾ (آل عمران :91) ” بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی ایک سے بھی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ زمین بھر کر سونا پیش کرئے ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا اور کوئی ان کی مدد نہیں کرسکے گا۔“ مسائل: 1۔ کفار اور منافقین کو ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا۔ 2۔ رہنے کے اعتبار سے جہنم بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن: منافقین کا اللہ اور اس کے رسول اور دین کے بارے میں روّیہ : 1۔ منافق دوغلی زبان اور دوغلے کردار کا مالک ہوتا ہے۔ (البقرۃ: 13، 14) 2۔ منافق اسلام کا دعویٰ کرتا ہے لیکن طاغوت کے فیصلہ پر خوش ہوتا ہے۔ (النساء :60) 3۔ مسلمانوں کوتکلیف پہنچا کر صفائی کی قسمیں اٹھاتا ہے۔ (النساء :62) 4۔ منافق کی زبان اور دل میں تضاد ہونا۔ (آل عمران :167) 5۔ منافق بغیر تحقیق کے افواہیں اڑاتا ہے۔ (النساء :82) 6۔ منافق صرف دنیا کی کامیابی چاہتا ہے۔ (النساء :141) 7۔ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتیہیں۔ (التوبہ :127) 8۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا؟ (التوبہ :124) 9۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبہ :86)