يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ
اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمانداروں سے کہیں گے :’’ہماری طرف دیکھو [٢٠] تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرسکیں‘‘ انہیں کہا جائے گا : پیچھے چلے [٢١] جاؤ اور نور تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ [٢٢] ہوگا اس دروازے کے اندر تو رحمت ہوگی اور باہر عذاب ہوگا۔
فہم القرآن: ربط کلام : منافقین کا مومنوں سے الگ کیا جانا اور ان کا انجام۔ اس سے پہلی آیت کی تفسیر میں یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے کہ جو لوگ نماز کا اہتمام کرتے ہیں قیامت کے دن ان کے ہاتھ پاؤں اور چہرے چمک رہے ہوں گے۔ حدیث رسول (ﷺ) سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ایک مرحلہ تک منافقین کے چہرے بھی روشن ہوں گے اور جس طرح منافقین دنیا میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے اسی طرح ہی کچھ مراحل میں قیامت کے دن بھی منافق مومنوں کے ساتھ جڑے رہیں گے جب مومنوں کو جنت میں داخل ہونے کا حکم ہوگا اور جنتی قافلوں کی صورت میں جنت کی طرف جارہے ہوں گے۔ تو منافق بھی ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔ جب پل صراط سے پہلے تاریک وادی سے گزریں گے تو مومن اپنے اعمال کے مطابق ہر جانب روشنی پائیں گے لیکن منافقوں کوہر طرف سے اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے گا۔ اس موقع پر منافق مرد اور عورتیں، مومن مرد اور عورتوں سے فریاد کریں گے کہ ہمیں بھی ساتھ لے کر چلو کیونکہ ہمیں کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی لیکن مومن مرد اور عورتیں منافقوں کی پرواہ کیے بغیر جنت کی طرف رواں دواں رہیں گے۔ منافق ٹھوکریں کھاتے ہوئے فریاد پر فریاد کریں گے کہ براہ کرم ہماری طرف اپنے چہرے فرمائیں تاکہ آپ کے منور چہروں کی روشنی سے ہم مستفید ہو سکیں۔ اس پر مومن منافقوں سے کہیں گے کہ ہمارے نور کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر روشنی چاہتے ہو تو واپس پلٹ کر روشنی تلاش کرو ! جونہی منافق پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو جنتیوں اور ان کے درمیان ایک بہت بڑی دیوار حائل کردی جائے گی جس میں بہت بڑا دروازہ ہوگا۔ اس کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت یعنی جنت ہوگی اور اس کے باہر جہنم ہوگی۔ جنتی دروازے سے گزر کر جنت میں داخل ہوجائیں گے اور منافق مرد اور عورتیں جہنم کے عذاب میں مبتلا کر دئیے جائیں گے۔ منافق مرد اور عورتوں کو جنت کے دروازے تک جنتیوں کے ساتھ اس لیے جانے دیا جائے گا تاکہ انہیں اپنی منافقت کے انجام کا پوری طرح احساس ہو کیونکہ یہ دنیا میں فائدے کے وقت مومنوں کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور مشکل کے وقت مومنوں کو چھوڑ کر کفار کا ساتھ دیتے تھے۔ قیامت کے دن ان کی منافقت کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا جائے گا تاکہ ان کی حسرتوں میں اضافہ ہوتا رہے اور یہ ہمیشہ جہنم کے نچلے درجے میں جلتے اور ذلیل ہوتے رہیں۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُہُمْ وَیَعْرِفُونِی ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِی۔۔ وَبَیْنَہُمْ فَأَقُولُ إِنَّہُمْ مِنِّی فَیُقَالُ إِنَّکَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَیِّرَ بَعْدِی) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض) ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پیے گا اور جو شخص بھی اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے وہ مجھے پہچان لیں گے اور میں انھیں اپنے امتی کے طور پر سمجھوں گا پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا۔۔ میں کہوں گا یہ تو میرے امتی ہیں کہا جائے گا آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعتیں شروع کیں میں ان سے کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن منافق مرد اور عورتیں ایمانداروں سے روشنی حاصل کرنے کے لیے فریاد کریں گے۔ 2۔ قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی۔ دیوار کی ایک طرف جنت ہوگی اور دوسری طرف جہنم ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن جنتیوں کا انعام اور منافقوں کا انجام : 1۔ ہم نے جنت میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس :34) 2۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات :15) 3۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور :17) 4۔ جنتی جنت میں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر :33) (التوبہ :68) 5۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء :142) (التوبہ :73)