آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ
اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ [٩] اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمہیں جانشین [١٠] بنایا ہے، تو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور خرچ کیا ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے
فہم القرآن: ربط کلام : کائنات کو پیدا کرنے والا اور اس کے نظام کو چلانے والا صرف ” اللہ“ ہے اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ان کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور بات سمجھانے اور منوانے کے لیے رسول مبعوث فرمائے۔ سب سے آخر میں نبی کریم (ﷺ) کو مبعوث فرمایا اور حکم دیا کہ لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں خرچ کرو۔ اسی نے تم کو زمین کا وارث اور مال کا مالک بنایا ہے، تم میں جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کی ر اہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں سب لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کے ر استے میں خرچ کرتے رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہیں ایک دوسرے کا وارث اور مال کا مالک بنایا ہے۔ اس میں یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ مال ہمیشہ ایک ہاتھ میں نہیں رہتا۔ غور فرمائیں کہ ایک غریب سے لے کر امیر تک اس کی زندگی میں کتنا مال اس کے ہاتھ لگتا ہے اور کتنا اس کے ہاتھوں سے دوسروں تک منتقل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت انسان کی ذات کی ہے۔ جس زمین کے کچھ حصے کا آج وہ وارث ہے اور جس سرزمین پر چلتا پھرتا ہے ماضی میں اس کا کوئی اور وارث تھا اور مستقبل میں کوئی دوسرا وارث ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور حسب استعداد اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر سچا اور پکا ایمان لائیں گے اور اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے اللہ تعالیٰ نہیں اجرعظیم سے ہمکنار کرے گا۔ (عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) وَہُوَ یَقْرَأُ ﴿أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ﴾ قَالَ یَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِی مَالِی قَالَ وَہَلْ لَکَ یَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ إِلاَّ مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَیْتَ أَوْلَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ) (رواہ مسلم : باب الزہد والرقائق) ” حضرت مطرّف اپنے باپ سے بیان کریں ہیں کہ میں نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آیا۔ آپ نے سورۃ التکاثر کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ ابن ادم کہتا ہے میرا مال، میرا مال، پھر فرمایا اے انسان! تیرا کوئی مال نہیں مگر جو تو نے کھالیا وہ ختم ہو، جو تو نے پہن لیا اس کو بوسیدہ کرلیا اور جو تو نے صدقہ کیا اس کا اجر تیرے لیے جاری ہوگیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّیِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا یُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتا ہے جس طرح تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کا حکم ہے کہ لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ 2۔ ازل تا ابد انسان ایک دوسرے کے وارث بنتے رہیں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کا ایمانداروں کو حکم ہے کہ وہ اس کی راہ میں خرچ کرتے رہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: انفاق فی سبیل اللہ کا حکم اور اس کا اجر : 1۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح مال خرچ کریں؟ فرمائیں کہجو مال خرچ کرنا چاہووہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیم، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (البقرۃ:215) 2۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ :262) 3۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ:265) 4۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ:272) 5۔ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء :114) 6۔ مخلص، مخیرحضرات لوگوں کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر :9) 7۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 8۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 9۔ اللہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ:261) 10۔ اللہ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ:261)