سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے، اللہ کی تسبیح کر رہی [١] ہے اور وہ غالب ہے، حکمت والا [٢] ہے
فہم القرآن: ربط سورت : سورۃ الواقعہ کے آخر میں حکم ہوا کہ اپنے عظیم رب کی تسبیح پڑھا کریں۔ الحدید کی ابتدا میں یہ ارشادہوا ہے کہ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ ” اللہ“ کی تسبیح پڑھتے ہیں کیونکہ ” اللہ“ ہر اعتبار سے غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ سورۃ الحدید ان تین سورتوں میں سے ہے جن کی ابتدا ” سَبَّحَ لِلّٰہِ“ کے پیارے الفاظ سے ہورہی ہے۔ ان پانچ سورتوں کو اہل علم مسبِّحات کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جن میں سورۃ الحدید، الحشر اور الصّف ” سَبَّحَ“ کے لفظ سے، سورۃ الجمعہ اور التغابن ” یُسَبِّحُ“ کے لفظ سے شروع ہوتی ہیں ان الفاظ میں یہ بات بتلائی اور سمجھائی گئی ہے کہ اے انسان جب تیرا وجود نہیں تھا تو اس وقت بھی زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے رب کی حمد و ستائش بیان کرتی تھی اور اب بھی کر رہی ہے اور مستقبل میں بھی بیان کرتی رہے گی۔ یاد رہے کہ ”سَبَّحَ“ ماضی کے لیے آتا ہے اور ” یُسَبِّحُ“ حال اور مستقبل کا احاطہ کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس بات کا اقرار اور اظہار کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ذرّے ذرّے پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے بے مثال اور لازوال اقتدار اور اختیار رکھنے کے با وجود اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اس فرمان میں پہلا سبق یہ ہے کہ اے انسان! جس دھرتی کے ا وپر تیرا بسیرا اور جس آسمان کے نیچے تیرا ڈیرا ہے اور جن فضاؤں میں تو سانس لیتا ہے وہ ماضی، حال اور مستقبل میں اپنے رب کے ثناء خواں ہیں اور رہیں گے۔ تجھے چاہیے کہ تو بھی اپنے رب کی حمد وثناء کرے اور ہر حال میں اپنے آپ پر ” اللہ“ غالب سمجھے۔ اس یقین کے ساتھ اس کے حکم کی تعمیل کر کہ جس بات کا اس نے حکم دیا اور جس کام سے اس نے منع کیا ہے۔ اس میں میری خیرخواہی پائی جاتی ہے۔ ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا۔ وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا﴾ (الاحزاب : 41، 42) ” اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) (رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَك﴾ الخ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں بھی میرا ذکر کرے اور جب بھی اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ رسول گرامی (ﷺ) نے معاذ بن جبل (رض) کو یہ دعا سکھلائی کہ اسے ہر نماز کے بعد پڑھا کرو۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِیْزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ) حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” سُبْحَان اللّٰہِ“ اور ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ (اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان) ” ایمان کے ستر سے کچھ اوپر اجزاء ہیں۔ ان میں افضل ترین لا الہ الا اللہ کا اقرار ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان میں شامل ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور حال اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ثناء خواں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے : 1۔ رعد اس کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الرعد :12) 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید :1) 3۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (نبی اسرائیل :44) 4۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ :5) 5۔ مومن ” اللہ“ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (السجدۃ:15)