أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ
بھلا دیکھو! جو پانی تم پیتے ہو
فہم القرآن: (آیت 68 سے 70) ربط کلام : کھیتی کا ذکر کرنے کے بعد پانی کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اپنی ذات کی طرف مرکوز کروانے کے لیے ایک دفعہ پھر ار شاد فرمایا ہے کہ غور تو کرو! کہ جو پانی تم پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم نے اسے نازل کیا ہے ؟ اگر ہم چاہیں تو اس پانی کو کھارا بنادیں تو پھر تم اسے کس طرح میٹھا بنا سکتے ہو ؟ لیکن اس کے باوجود تم شکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم آسمان سے بارش نازل کرتے ہیں اور بارش کے ذریعے باغات، نباتات اور کھیتیاں اگاتے ہیں۔ یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ سورج کی تپش سے سمندر کا پانی بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے۔ جسے ہوا فضا میں ایک خاص مقام تک اوپر لے جاتی ہے، پھر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور بادلوں کا فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جہاں اسے حکم دیتا ہے بادلوں کو ہانک کر وہاں لے جاتا ہے اور پھر وہاں بارش برستی ہے۔ یہاں اس بات کو اختصار کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے کہ اے لوگو! جو تم پانی پیتے ہو اس پر غور کرو کہ کیا تم اسے بادل سے نازل کرتے ہویا ہم نازل کرتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالیٰ اس پانی کو کھارا بنادے تونہ صرف پینے کے قابل نہ رہے بلکہ اس سے فصلیں بھی تباہ ہوجائیں گی۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو ہوا کے ذریعے صاف (FILTERIZE) فرما کرنازل کرتا ہے تاکہ لوگ اسے پئیں، فائدہ اٹھائیں اور اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس کا شکر ادا نہیں کرتی۔ شکر کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف اللہ کو اپنا خالق، مالک، رازق اور حاکم سمجھے اور بلاشرکت غیرے اس کی عبادت کرے، یہی اس کا سب سے بڑا شکر ہے اور شکر گزار بندے ہی عبادت گزار اور اس کے حقیقی فرمانبردار ہوا کرتے ہیں۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کو پہچانتا ہے اور اس کی اطاعت میں لذت محسوس کرتا ہے جس نے اپنے محسن حقیقی کو فراموش کردیا وہ پرلے درجے کا ناشکرا اور ناقدردان ٹھہرے گا۔ جب شیطان کو بارگاہ ایزدی سے دھتکارا گیا تو اس نے سب سے پہلے یہی بات کہی تھی کہ جس کی وجہ سے مجھے دھتکارا گیا ہے آپ ان کی اکثریت کو اپنا شکر گزار نہیں پائیں گے۔ ﴿قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِہِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِہِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ﴾ (الاعراف : 16، 17) ” اس نے کہا پھر جس وجہ سے تو نے مجھے دھتکارہ ہے۔ میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔“ اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچنے کے لیے انسان بالخصوص مسلمان کو اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار قال البانی صحیح) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل: 1۔ انسان کو پانی کی نعمت پر غور کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پانی کو کھارا کردے تو کوئی اسے میٹھا نہیں بنا سکتا۔ تفسیربالقرآن : لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (لقمان :12) 2۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ:172) 3۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ (الاعراف :58) 4۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم :7) 5۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر :7) 6۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر :35) 7۔ شکر گزار تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا: 13) 8۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء :147) 9۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکر ا بنانا ہے۔ (الاعراف :17)