إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ
جب واقع ہونے والی (قیامت) واقع ہوگی
فہم القرآن: (آیت 1 سے 6) ربط سورت : سورۃ الرّحمن کا اختتام ان الفاظ پرہوا کہ آپ کا رب بڑی برکت والا اور ذوالجلال والاکرام ہے۔ الواقعہ کی ابتدارب ذوالجلال کی جلالت کے اظہار سے ہورہی ہے کہ قیامت کے دن اس کی جلالت کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی یہاں تک کہ پہاڑ بھی اس کے حکم کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے جوں ہی اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تواہل مکہ کی کوئی مجلس ایسی نہ تھی جس میں تین موضوعات میں سے کسی ایک موضوع پر بحث نہ ہوتی ہو۔ لوگ یہاں بیٹھتے اللہ کی توحید، نبی (ﷺ) کی نبوت اور قیامت کے عنوانات میں سے کسی ایک عنوان پر ضرور گفتگو کرتے۔ اس میں بالخصوص نبی (ﷺ) کی نبوت اور قیامت کے قائم ہونے کو استہزاء کانشانہ بنایا جاتا۔ وہ کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ قیامت قائم ہوگی اور ہمیں رب ذوالجلال کے حضور پیش ہونا ہے۔ قرآن مجید نے انہیں ہر قسم کے دلائل سے سمجھایا ہے کہ قیامت ضرورقائم ہوگی۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ اس زمین کا وسیع و عریض نظام کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے اور بلندوبالا پہاڑوں کو کون ہلاسکتا ہے۔ قرآن مجید نے اس سوال کا یوں جواب دیا۔ ﴿وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۔ فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۔ لَّا تَرٰی فِیْہَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا﴾ (طٰہٰ: 105، 107) ” یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے ؟ فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا اور زمین کو چٹیل میدان کر دے گا۔ اس میں تم کوئی اونچ نیچ نہ دیکھ پاؤ گے۔“ سورۃ الواقعہ کی ابتدا پرجلال الفاظ سے فرمائی کہ جب قیامت کا واقعہ پیش آئے گا تو وہ اس قدرخوفناک اور ہر چیز ہلادینے والا ہوگا کہ کوئی جھٹلانے والا جھٹلا نہیں سکے گا۔ قیامت کو جھٹلانے والے اس دن زمین کو پکار پکار کہیں گے۔ ہائے ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ ٹھہرتی کیوں نہیں؟ سورۃ الزلزال کی پہلی اور دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ زمین کو پوری طرح ہلایا جائے گا۔ یہاں تک کہ پہاڑ ریت کے ذرّات بن کر اڑنا شروع ہوجائیں گے۔ یہاں زمین کے بارے میں فرمایا کہ ” خَافِضَۃُ رَافِعَۃٌ“ قیامت اسے اوپر نیچے کر دے گی جس سے ہر چیز تہہ بالا ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ زمین چٹیل میدان بنادی جائے گی اور زمین و آسمانوں کو یکسر طور پر بدل دیا جائے گا۔ ﴿یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ﴾ (ابراہیم :48) ” جس دن اس زمین کو دوسری زمین کے ساتھ بدل دیا جائے گا اور آسمان بھی بدل دیا جائے گا اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا اور بڑا زبر دست ہے۔“ ﴿یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ﴾ (القارعۃ: 4، 5) ” اس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوں گے۔“ مسائل: 1۔ قیامت ہر صورت واقع ہوجائے گی۔ 2۔ قیامت واقع ہوگی تو جھٹلانے والے اسے جھٹلا نہیں سکیں گے۔ 3۔ زمین کی ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی جائے گی۔ 4۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن زمین اور پہاڑوں کی حالت۔ 1۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف :47) 2۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمل :14) 3۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامہ : 6تا8) 4۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ تارے بے نور ہوجائیں گے۔ پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : 1تا3)