أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ
تاکہ تم تولنے میں زیادتی نہ کرو۔
فہم القرآن: (آیت 8 سے 9) ربط کلام : آسمان کی رفعت کا ذکر کرنے کے بعد ترازو کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ترازو بھی زمین سے بلند رکھا جاتا ہے۔ جس طرح آسمان زمین سے بلند ہے۔ (الحدید :25) میں فرمایا کہ میزان آسمان سے اتارا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام اور لوگوں کے درمیان اخلاقی، سیاسی، معاشی اور ہر قسم کا عدل و انصاف قائم رکھنے کے لیے ایک میزان نازل فرمایا ہے۔ جس کے بارے میں اس کا حکم ہے کہ میزان میں تجاوز نہیں ہونا چاہیے حکم دیا کہ جب کسی چیز کا ماپ تول کرو تو اس میں عدل قائم رکھو اور ماپ، تول میں کسی صورت بھی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کے اندر ایک نظام اور توازن قائم فرمایا ہے جس بنا پر ہر چیز اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنا، اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ توازن اور نظام سے آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ سورج اور چاند ایک دوسرے کے مدار میں داخل نہیں ہوتے، رات اور دن اپنے نظام الاوقات سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے انسان کے و جود میں بھی ایک توازن قائم کردیا ہے۔ حکماء نے انسان کی جبلّت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ برودت، حرارت اور سوداء۔ ان میں سے کسی چیز میں کمی بیشی واقع ہوجائے تو انسان کا نظام صحت خراب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان میں منفی اور مثبت قوتیں رکھی ہیں۔ انتقام اور بدلے کے درمیان، حوصلے اور بزدلی، غیرت اور حسد، مصلحت اور منافقت، حوصلہ اور بزدلی کے درمیان تھوڑا ہی فاصلہ پایا جاتا ہے اگر یہ فاصلہ ختم ہوجائے، تو میزان میں جھول واقع ہوجاتی ہے ان قوتوں میں توازن نہ رہے تو انسان اور کائنات کا پورا نظام عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے عدم توازن سے بچنے کے لیے حکم ہے کہ توازن قائم رکھو اسی طرح ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ناپ تول میں بھی قسط یعنی عدل قائم رکھنا لازم ہے۔ کسی سے کوئی چیز خریدی جائے یا اس کے ہاتھ بیچی جائے تو اس میں بھی کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ 9دفعہ استعمال ہے۔ دو آیات میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے ایک میزان نازل فرمایا ہے۔” اَلْمِیْزَانُ“ کے بارے میں اہل علم کے چار قسم کے خیالات ہیں۔ جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حق پر مبنی ہیں۔1۔” اَلْمِیْزَانُ“ درحقیقت الکتاب کی تشریح ہے۔2 ۔” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم ہے جس کے ذریعے انسان حق وباطل کے درمیان وزن اور فرق کرسکتا ہے۔3۔ ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد عقل سلیم ہے جس کی روشنی میں آدمی حق اور ناحق کی پہچان کرتا ہے۔ 4 ۔ ”اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد دنیا کی کسی چیز کی پیمائش یا وزن کرنے کا پیمانہ ہے جس کے ذریعے لوگ آپس میں لین دین کرتے ہیں۔ جن آیات میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ہے وہ یہ ہیں۔ (الانعام : 152، الاعراف : 85، ھود : 48، 85، الشوریٰ: 17، الرحمن : 7، 8، 9، الحدید :25) قرآن مجید نے ہر معاملے میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں عدل قائم نہیں ہوگا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور عدل و انصاف سے محروم اقوام بالآخر تباہ ہوجاتی ہیں۔ ( عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أَنَّ قُرَیْشًا أَھَمَّھُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقَالُوْا وَمَنْ یُکَلِّمُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالُوْا وَمَنْ یَجْتَرِ ئُ عَلَیْہِ إِلَّا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَکَلَّمَہٗ أُسَامَۃُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَإِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ أَقَامُوْاعَلَیْہِ الْحَدَّ وَأَیْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا) (رواہ البخا ری : باب حدیث الغار) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش اس مخزومی عورت کے بارے میں بڑے فکر مند ہوئے جس نے چوری کی تھی انہوں نے سوچا کہ اس معاملے میں اللہ کے رسول سے کون بات کرے گا؟ کہنے لگے کہ یہ کام اسامہ بن زید (رض) کے سوا کوئی نہیں کرسکتاکیونکہ وہ اللہ کے رسول کا محبوب ہے۔ اسامہ نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے عرض کی۔ آپ نے فرمایا : کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : یقیناً تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی بڑاچوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ایک میزان قائم فرمایا ہے۔ 2۔ میزان میں کمی بیشی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: القِسط کی اہمیت وفرضیت : 1۔ نبی (ﷺ) کو عدل و انصاف کا حکم۔ (الاعراف :29) 2۔ صلح بھی عدل و انصاف سے کروانا چاہیے۔ (الحجرات :9) 3۔ رسولوں کی بعثت کا مقصد انصاف قائم کرنا تھا۔ (الحدید :25) 4۔ انصاف کی بات کہنے کا حکم۔ (الانعام :152) 5۔ کسی کی دشمنی عدل و انصاف میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ (المائدۃ:8) 6۔ داؤد علیہ السلام کو عدل کرنے کا حکم۔ (صٓ:26)