إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
بلاشبہ ہم نے ہر چیز [٣٤] کو ایک مقدار سے پیدا کیا ہے
فہم القرآن: (آیت 49 سے 53) ربط کلام : کفار کا دنیا اور آخرت میں انجام ذکر کرنے کے بعد اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور وقت مقرر کر رکھا ہے۔ کوئی چیز اپنے اندازے اور وقت سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ اگر ان لوگوں کی ابھی تک گرفت نہیں ہوئی تو اس کا بھی وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ان کی امتوں کی طرف بھیجا اور ہر نبی نے اپنی امت کو نیکی کرنے کا حکم دیا اور قیامت کے دن اس کے صلہ کی خوشخبری سنائی۔ نیکی کا حکم دینے کے ساتھ انبیائے کرام (علیہ السلام) نے لوگوں کو برے اعمال سے منع کیا اور اس کے انجام سے ڈرایا۔ ہر نبی کے مخاطبین کی اکثریت نے قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا مذاق اڑایا اور ان سے عذاب اور قیامت لانے کا مطالبہ کیا اور یہی روّیہ اور مطالبہ اہل مکہ کا تھا۔ جس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ ہم نے ہر چیز کو اس کے اندازے کے مطابق بنایا ہے اور اس کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جو کسی کی نافرمانی اور اس کے اصرار پر تبدیل نہیں ہوتا۔ جب اس کا وقت آتا ہے تو پھر ہمارا حکم آنکھ جھپکنے سے پہلے پورا ہوجاتا ہے۔ ہم ان جیسے مجرموں کو پہلے بھی ہلاک کرچکے ہیں۔ تو کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے ؟ جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں وہ سب کا سب ان کے اعمال ناموں میں درج ہے۔ کیونکہ ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ لیا جاتا ہے۔ گویا کہ جو کچھ یہ کررہے ہیں وہ سب کا سب درج کیا جارہا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان نے جو کچھ کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے وہ پہلے سے لکھ رکھا ہے۔ اس بات کو حدیث کی زبان میں تقدیر کہا گیا ہے جس کی تشریح نبی (ﷺ) نے اس طرح فرمائی ہے۔ ﴿وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِینَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ اِِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ وَاِِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ﴾ (الانفطار : 10تا14) ” بے شک تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں۔ ایسے معزز کا تب۔ جو تمہارے ہر کیے کو جانتے ہیں۔ یقیناً نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے اور بے شک بدکار لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جزا کے دن اس میں داخل ہوں گے۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔۔) (رواہ البخاری: کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (ﷺ) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھ لیتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔۔“ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔“ (رواہ البخاری : باب ذکر الملائکۃ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آنکھ جھپکنے سے پہلے نافذ ہوجاتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اہل مکہ جیسے مجرموں کو پہلے بھی ہلاک کرچکا ہے۔ 3۔ اگر کوئی سبق حاصل کرنا چاہے تو پہلی قوموں کے انجام میں لوگوں میں عبرت موجود ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔