وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ
آل فرعون کے ہاں بھی ڈرانے والے آئے تھے۔
فہم القرآن: (آیت 41 سے 42) ربط کلام : قوم لوط کے بعد قوم فرعون کا ذکر۔ مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ فرعون اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا۔ کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا کیونکر ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو اعلانیہ طور پر رب اعلیٰ قرار دیا۔ اپنی قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے۔ میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کے گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کو پالا اور رسول منتخب فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ میں تمھارے پاس اپنے رب کی ربوبیّت اور اس کی وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ تمھیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدھا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ پھر اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے بھی زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) فرعون نے اقتدار کے نشہ میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے پیش کیے ہوئے تمام دلائل اور بڑے بڑے معجزات ٹھکرا دئیے۔ اقتدار بچانے، عوام اور لیڈروں کو ساتھ رکھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر الزام لگایا کہ یہ رسول نہیں بلکہ جادوگر ہیں اور جادو کے زور پر ہمارے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہمیں ملک سے باہر نکال کر بنی اسرائیل کو مصر میں برسراقتدار لائیں۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو چیلنج کیا ہم اس طرح اقتدار چھوڑنے والے نہیں بلکہ ہم تمہارے جادو کا مقابلہ جادو کے ساتھ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ طے پانا چاہیے جس کی نہ ہم مخالفت کریں گے اور نہ تمھیں مخالفت کرنی چاہیے۔ گویا کہ دونوں فریقوں کو اس کی پوری پوری پاسداری کرنا ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن قومی تہوار کا دن مقرر کیا جائے اور وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہو۔ تاکہ لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو کر دن کی روشنی میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکیں کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد تھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اتنا بڑا اجتماع کرنے کے وسائل اور اثر رسوخ کہاں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں ہی یہ کام کر دکھایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا چرچا اور ان کا پیغام پوری قوم تک پہنچ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معاہدہ طے پانے کے بعد فرعون نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی حکومت کے تمام وسائل جھونک دیے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قومی دن کے موقع پر ملک کے دارالحکومت مصر میں بہت بڑا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پورے ملک میں جشن کا عالم ہوتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ حکومت نے بہت بڑے اجتماع کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا اور ایسا اجتماع منعقد کیا جس کی مثال مصر کی تاریخ میں پہلے سے موجود نہ تھی جب کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔ تو فرعون پورے شان و شکوہ اور دبدبہ سے انتظامیہ اور ملک کے جادوگروں کے ساتھ اجتماع میں نمودار ہوا۔ لوگوں کے جذبات انتہا پر تھے۔ ایک طرف جادوگروں کے گروہ اور دوسری طرف صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) تھے۔ مگر تنہائی اور کسمپرسی کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے اعتماد کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جونہی ماحول قدرے پر سکون ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں اور حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہو۔ اگر تم اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ تمھیں تباہ و برباد کر دے گا۔ یاد رکھو جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا وہ ناکام ہوا۔ ملک بھر کے جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے خلاف صف آراء ہوئے تو انھوں نے بڑے غرور میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم لاٹھی پھینکتے ہو یا ہم اپنی چیزیں پھینکیں؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے اعتماد اور پُر وقار لہجے میں فرمایا کہ تمھیں ہی پہل کرنا چاہیے۔ جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں لگا کہ جیسے رسیاں اور لاٹھیاں چھوٹے بڑے سانپ بن کرادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکتے ہی جادوگروں نے چلّا چلّاکر فرعون زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ آج ہم ہی کامیاب ٹھہرئیں گے۔ (الشعراء :44) جادوگروں کا مظاہرہ اس قدر زبردست تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی خوف زدہ ہوگئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے۔ ( القصص :31) جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ رسیوں، بڑے بڑے بانسوں اور لاٹھیوں کو کھا گیا۔ جونہی رسیاں اور لاٹھیاں ختم ہوئیں تو جادوگر یہ کہتے ہوئے سجدہ میں گر گئے کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ اگر وہ اس موقعہ پر اپنے رب یا رب العالمین کا لفظ استعمال کرتے تو فرعون لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا تھا کہ جادوگر مجھے ہی رب العالمین سمجھ کر سجدہ کر رہے ہیں۔ لیکن جادوگروں نے بڑی بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ یہی سچے اور خالص ایمان کی نشانی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کھوٹ اور شرک کی آمیزش نہیں ہوتی۔ جادوگر اس لیے بھی اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ جادوگروں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اپنی ناکامی دیکھ کر جادوگر سجدہ میں گِر گئے۔ جس کے لئے گرا دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا کہ جادوگر اس قدر مغلوب ہوئے کہ بے ساختہ سجدہ میں گِر پڑے۔ (الاعراف :120) جونہی فرعون نے دیکھا کہ جادوگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا چکے ہیں تو اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے یہ اعلان کیا کہ تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو جو میرے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ یقیناً موسیٰ تمھارا بڑا استاد ہے جس نے تمھیں جادو سکھلایا ہے۔ میں اس جرم کے بدلے تمھارے مخالف سمت پر ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمھیں پھانسی دی جائے گی۔ تمھیں پوری طرح معلوم ہوجائے گا کس کا عذاب سخت اور دیر پا ہے۔ (طٰہٰ:71) تفسیر بالقرآن: فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : 1۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الاعراف :64) 2۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف :55) 3۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل :103) 4۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء :66) 5۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات :40)