حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ ۖ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ
(ان میں) دانائی کی باتیں ہیں جو اتمام حجت کو کافی ہیں لیکن یہ تنبیہات ان کے کسی کام [٥] نہ آئیں۔
فہم القرآن: (آیت 5 سے 8) ربط کلام : منکرین قیامت کے پاس شق قمر کا معجزہ اور دیگر دلائل آچکے ہیں لیکن اس کے باوجود عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے ظہور سے پہلے اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ہی عبرت حاصل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نہ صرف قیامت قائم ہونے کے دلائل دیئے ہیں بلکہ کچھ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے سا تھیوں کے سامنے مردوں کو زندہ کرکے بھی دکھلایا ہے اور جو لوگ دلائل اور تنبیہات کے باوجود قیامت پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ اس دن سے پہلے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے جس دن انہیں بلانے والا اس چیز کی طرف بلائے گا۔ جیسے یہ لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ یہ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کی نگاہیں خوف کے مارے جھکی ہوئی ہوں گی اور یہ بکھری ہوئی ٹڈیوں کی طرح منتشر ہوں گے۔ قیامت کے منکر پکار پکار کرکہیں گے کہ آج کا دن بڑا بھاری اور سخت ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر ذکر کیا ہے کہ جب اسرافیل دوسری مرتبہ صورپھونکے گا تو لوگ اپنے اپنے مقام پر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ سورۃ یٰس میں یہ بھی ذکر ہے کہ جب لوگ اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو وہ محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانے کی طرف جاتا ہے۔ (المعارج :43) ﴿وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَاِذَا ہُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِِلٰی رَبِّہِمْ یَنسِلُوْنَ قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ اِِنْ کَانَتْ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ فَالْیَوْمَ لاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَّلاَ تُجْزَوْنَ اِِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ ( یٰسٓ: 51تا54) ” پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک لوگ تیزی سے دوڑتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔ گھبرا کر کہیں گے کس نے ہماری خواب گاہ سے ہمیں اٹھا کھڑا کیا یہ وہ بات ہے جس کا رب رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچ تھی۔ یہ صرف زور دار آواز ہوگی اور سب کے سب ہمارے سامنے پیش کردیے جائیں گے۔ آج کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے رہے ہو۔“ (وَعَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَامَاتَ عَلَیْہِ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِحُسْنِ الظَّنِّ باللَّہِ تَعَالَی عِنْدَ الْمَوْتِ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا : ہر شخص اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت ہوگا۔“ ” حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ“ سے مراد قرآن مجید ہے اور شق قمر کا معجزہ بھی قیامت کے ثبوت ہیں۔ اس کا یہ بھی معنی ہے کہ ایسی حکمت جس کے خلاف کوئی واضح دلائل نہ ہو۔ مسائل: 1۔ جو لوگ قیامت پر یقین نہیں رکھتے وہ ہر قسم کے دلائل اور تنبیہات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ 2۔ ” اللہ“ کی طرف سے لوگوں پر حجت پوری کردی گئی ہے مگر لوگ پھر بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ 3۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو خوف کے مارے مجرموں کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ 4۔ قیامت کے دن لوگ ٹڈیوں کی طرف منتشر ہوں گے اور انہیں محشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن لوگوں کی حالت : 1۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہیں ہوگی وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس :26) 2۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور انہیں اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ (یونس :27) 3۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامہ :22) 4۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوں ہو گے۔ (الحج :72) 5۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس :38) 6۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس :40) 7۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر :73) 8۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس :27)