وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَىٰ وَأَقْنَىٰ
اور یہ کہ وہی دولت مند بناتا اور مفلس [٣٣] کرتا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 48 سے 49) ربط کلام : جو ” رب“ انسان کو نر اور مادہ کی صورت میں پیدا کرتا ہے وہی انسان کو تونگربناتا اور تنگ دست کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات میں یہ بات بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا رزق فراخ کرتا ہے اور وہی رزق تنگ کرنے والاہے۔ بے شک انسان کو رزق کمانے کا حکم دیا گیا ہے مگر رزق کی کشادگی کا دارومدار انسان کی محنت پر نہیں رکھا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت اور مشیّت ہے کہ جس کا چاہے رزق فراخ کرے اور جس کا چاہے کم کردے۔ رزق کی فرادانی اور اسباب کی وسعت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے نوازتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ انسان کو تلاش رزق کا حکم ہے مگر رزق کا انحصارصرف انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق کا دار ومدار انسان کی محنت پر ہوتا تو دنیا میں کوئی ہنرمند غریب نہ ہوتا، کوئی لینڈلارڈ مقروض نہ ہوتا، اور نہ ہی کار خانے دار دیوالیہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ اس نے لوگوں کے تعلقات کو مربوط رکھنے کے لیے رزق کی تقسیم اس طرح کی ہے کہ ایک شخص اپنی روزی کے لیے کئی انسانوں کے تعاون کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ جس بنا پر لوگ ایک دوسرے کی روزی میں معاون بنتے ہیں۔ کار خانے دار کو دیکھیں کہ وہ کتنے لوگوں کے رزق کا وسیلہ بنتا ہے۔ یہی صورت حال زمیندار کی ہے کہ بظاہر وہ اپنی روزی کے لیے محنت کرتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ درجنوں گھرانوں، سینکڑوں جانوروں اور ہزاروں کیڑے مکوڑوں کی روزی کا وسیلہ بنتا ہے۔ ہر دور میں ایسے مشرک ضرور ہوتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ انسان کی قسمت اور رزق کا تعلق ستاروں کی گردش کے ساتھ منسلک ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگ علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں ستارہ اگر فلاں مدار میں پہنچ جائے تو بارش کا برسنا لازم ہوجاتا ہے۔ ستاروں میں سب سے بڑا ستارہ الشِّعْریٰ ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ تمام ستاروں کا رب ہے لیکن الشِّعریٰ کے ” رب“ ہونے کا اس لیے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ عرب کے کچھ قبائل اس کی عبادت کرتے تھے جو اس کی عبادت نہیں کرتے تھے وہ بھی اس کی تکریم کے قائل تھے۔ شعریٰ ستارے کے انگریزی میں کئی نام ہیں۔ اسے SIRIUS ،STAR، DOG اور CANIS MAJORIS بھی کہا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا یا بریٹانیکا میں (SIRIUS) کے عنوان کے ضمن میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ ” یہ ستارہ مجموعۂ نجوم میں روشن ترین ستارہ ہے۔ سورج سے بھی اس کی روشنی اکیس گنا زیادہ ہے اور حجم میں بھی یہ سورج سے بڑا ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت بھی کافی زیادہ ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ عشاریہ چھ (8.6) نوری سال ہے۔ قدیم مصری اس کو بہت مقدس مانتے تھے کیونکہ جس موسم میں یہ طلوع ہوتا اس وقت دریائے نیل میں سیلاب کی آمد آمد ہوتی۔ تمام علاقہ سیراب ہو کر سبزوشاداب ہوجاتا۔ مصریوں کا عرصۂ دراز تک یہی عقیدہ رہا کہ شعریٰ ستارہ کے طلوع کے نمودار ہونے پر مصر کی خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اسے ہر قسم کی شادابیوں کا خالق یقین کرتے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ (انسائیکلو پیڈیا، جلد :20) ” حضرت خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (رض) نے ہمیں صبح کی نماز حدیبیہ کے مقام پر پڑھائی۔ رات کو ہونے والی بارش کے اثرات فضا میں نمایاں تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ (ﷺ) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور صحابہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ صحابہ (رض) نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کچھ بندوں نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں صبح کی۔ جس نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور اس نے ستاروں کا انکار کیا اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی اس نے میرا انکار کیا اور وہ ستاروں پر ایمان لایا۔“ (رواہ البخاری : باب یَسْتَقْبِلُ الإِمَام النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ) مسائل: 1۔ اللہ ہی رزق فراخ کرنے والا اور وہی رزق تنگ کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن : رزق کی فراخی اور تنگی کا اختیار صرف ” اللہ“ ہی کے پاس ہے : 1۔ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (المائدۃ:64) 2۔ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک صرف ” اللہ“ ہے۔ (المنافقون :7) 3۔ زمین و آسمان کی کنجیوں کا مالک ” اللہ“ ہے۔ (الزمر :63) 4۔ ” اللہ“ نے ہر جاندار کے رزق کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ (ہود :67) 5۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر :52) 6۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے دوہرا اجر اور رزق کریم تیار کر رکھا ہے۔ (الاحزاب :31) 7۔ ” اللہ“ ہی رازق ہے اور بڑی قوت والا ہے۔ (الذاریات :58) 8۔ اللہ تعالیٰ رزق بڑھاتا اور کم کرتا ہے۔ (العنکبوت :62)