سورة النجم - آیت 33

أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے روگردانی کی

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: (آیت 33 سے 38) ربط کلام : اللہ تعالیٰ بخشش فرمانے والا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس کی بخشش سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ جو شخص کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے چھوٹے گناہوں کو ازخود معاف کردیتا ہے۔ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے جو توبہ کے بغیرجائے اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا۔ نبی (ﷺ) یہی بات اہل مکہ کو سمجھاتے تھے لیکن وہ لوگ اسے سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس کے لیے وہ مختلف قسم کے بہانے پیش کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ ہمارے بزرگ ہمیں قیامت کے دن چھڑا لیں گے۔ کبھی کہتے کہ جو دنیا میں خوشحال ہے وہ آخرت میں بھی بہتر اور خوشحال ہوگا۔ اسی زعم کے پیش نظر ولید بن مغیرہ کے ساتھ ایک شخص کا اس بات پر سودا ہوگیا کہ اگر تو مجھے اتنا مال دے۔ تو میں تیری قیامت کی ذمہ داری اٹھاتا ہوں۔ بڑے بڑے مفسرین نے ان آیات کا یہی شان نزول بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ابوجہل سے پہلے ولید بن مغیرہ ہی اہل مکہ کا سردار سمجھا جاتا ہے یہ زیرک اور سمجھدار انسان تھا، قریب تھا کہ مسلمان ہوجاتا۔ اس کے مشرک دوست کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ولید کے پاس آکر کہنے لگے کہ جس آخرت سے ڈر کر تو مسلمان ہونا چاہتا ہے اس کا فکر نہ کر۔ میں اس کی ذمہ داری لیتاہوں بشرطیکہ تو اتنا مال مجھے دے۔ ولید نے اس سے معاملہ طے کرلیا کہ میں تجھے اتنا مال دوں گا اور تو میری آخرت کا ذمہ دار ہوگا۔ معاملہ طے ہونے کے بعد ولیدنے اسے کچھ مال دیا۔ اس اثناء میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ جب ولید کے دوست نے باقی مال کا مطالبہ کیا تو ولید نے انکار کردیا۔ اس پر یہ فرمان جاری ہوا کہ کیا آپ (ﷺ) نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے قیامت کا انکار کیا اور تھوڑا سامال دیا پھر باقی دینے سے منحرف ہوگیا۔ کیا آخرت کی ذمہ داری لینے والے کے پاس غیب کا علم ہے؟ جس بنا پر اس نے یہ ذمہ داری لی۔ انہیں اور سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات صرف قرآن میں نہیں بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تورات اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف میں کھول کر بیان کی ہے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تورات اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا اس لیے نام لیا ہے کہ اہل مکہ کا ایمان تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) نبی تھے اور ان کی کتب کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا دو مقام پر ذکر ہوا ہے۔ ایک اس مقام پر اور دوسرا سورۃ الاعلیٰ کی آیت 19میں بیان ہوا۔ دونوں مقامات پر آخرت کے ذکر کے بعد موسیٰ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا نام آیا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی شخصیات اور ان کی جدوجہد کا تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) سے زیادہ ذکر ہوا ہے۔ یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کا ذکر ہے وہ قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات سے کہیں زیادہ بیان ہوئی ہیں۔ ” جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کرلے گا۔ جو اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بدبخت ہوگا۔ وہ دھکتی آگ میں میں داخل کیا جائے گا۔ پھرنہ اس میں نہ موت آئے گی اور نہ زندگی ہوگی۔ فلاح پا گیا وہ شخص جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ یہی بات پہلے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔“ (الاعلیٰ: 10تا19) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں جانتا۔ 2۔ کسی کو معلوم نہیں کہ قیامت کے دن اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ 3۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ 4۔ تورات اور صُحُف ابراہیم میں بھی قیامت پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا ہے، اور ان میں بتایا گیا ہے کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا : 1۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ:134) 2۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 3۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر :18) 4۔ روز محشر دوست کام نہیں آئیں گے۔ (البقرہ :254) 5۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن :39) 6۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 7۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ :141)