أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ
کیا بھلا تم نے لات و عزیٰ (دیویوں) پر بھی غور کیا ؟
فہم القرآن: (آیت 19 سے 22) ربط کلام : رب کبریا کو چھوڑ کرلات عزّٰی اور منات وغیرہ کی عبادت کرنے والوں کی مذمت۔ اللہ تعالیٰ نے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ نبی (ﷺ) نہ بہکے ہیں اور نہ ہی صحیح عقیدہ اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہیں۔ آپ (ﷺ) جو کچھ فرماتے ہیں اللہ کی وحی کے مطابق ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ (ﷺ) پر وحی لانے والا جبریل امین بڑا طاقتور، نہایت سمجھدار، باصلاحیت اور بہت ہی خوبصورت ہے۔ آپ نے اسے اس کی اصلی حالت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دو کمانوں سے بھی قریب تردیکھا۔ نہ آپ (ﷺ) کی آنکھ چندھائی اور نہ ہی آپ نے ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں آپ (ﷺ) نے اپنے رب کی نشانیوں کو براہ راست دیکھا اور واپس آکر مِن وعن بیان فرمایا جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے لیکن اس کے باوجود اے اہل مکہ تم لات، عزّٰی اور منات کی عبادت کرتے ہو۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ تم اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم نے اپنے معبودوں کے نام لات، منات اور عزیٰ رکھ لیے ہیں۔ جنہیں داتا، دستگیر، لجپال اور مشکل کشا سمجھتے ہو۔ اس کی تمہارے اور تمہارے آباء و اجداد کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ محض اپنے خیالات اور جذبات کی پیروی کرتے ہو۔ حالانکہ تمہارے رب کی طرف سے اس کی توحید کے اثبات اور بتوں کی تردید کے لیے واضح دلائل آچکے ہیں۔ 1۔ لات : ” لات“ لفظ اللہ کی تانیث یعنی مؤنث ہے۔ یہ بت طائف میں رکھا گیا تھا۔ اہل طائف اور دوسرے مشرکین کو اس کے ساتھ اتنی عقیدت تھی جب ابرہہ نے بیت اللہ پر حملہ کیا تو طائف والوں نے لات کے دربار کو بچانے کے لیے ابرہہ کی مدد کی وہ لوگ اس بت کے سامنے رکوع وسجود اور نذرونیاز پیش کرتے تھے۔ اللہ کے رسول نے مکہ اور حنین فتح کرنے کے بعد طائف کا محاصرہ کیا تو طائف والوں نے ایک مہینہ تک اپنا دفاع کیا۔ نبی (ﷺ) نے محسوس کیا کہ طائف کے لوگ تھک چکے ہیں مگر اپنی ضد کی بنا پر ہتھیار پھینکنے اور مسلمان ہونے کے لیے تیار نہیں۔ آپ نے ان کے لیے دعا کی ” اَللّٰھُمَّ اھْدِوَأْتِ بِھِمْ“ الٰہی ! انہیں ہدایت دے تاکہ یہ خود ہی میرے پاس آ جائیں۔ آپ (ﷺ) کی دعا کا اثر تھا کہ تھوڑی ہی مدت بعد طائف کا وہ سردار جس نے آپ پر پتھراؤ کرایا تھا بھاری بھرکم وفد لے کر مدینہ میں حاضرہوا اس کا نام عبدیالیل تھا۔ اس نے آپ (ﷺ) کے ساتھ مذاکرات کیے اور اسلام لانے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ یہ شرط رکھی۔ 1۔ ہمیں نماز سے مستثنیٰ قراردیا جائے۔ 2۔ لات کو یوں کا توں رہنے دیا جائے۔ آپ (ﷺ) نے یہ شرط قبول نہ کی۔ سردار عبد یا لیل نے کہا کہ کم از کم اسے چھ مہینے تک رہنے دیا جائے۔ آپ (ﷺ) نے اس بات کو بھی قبول نہ کیا۔ بالآخر اس نے یہ درخواست کی کہ ہمارے واپس جانے کے بعد اس کو مسمار کرنے کے لیے آدمی بھیجیں، آپ (ﷺ) نے یہ شرط قبول فرمالی۔ جب آپ نے کچھ صحابہ کو طائف بھیجا تو وہ لات کی عمارت کو گرانے لگے تو مجاوروں نے کہا خبردار! آگے نہ بڑھنا ہماری دیوتی تمہیں تباہ کردے گی۔ صحابہ (رض) نے اسے بنیادوں سے اکھاڑپھینکا تب جاکر لوگوں کو یقین ہواکہ بت نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ 2۔ العزّٰی : العزّٰی کا معنٰی ہے عزت والی۔ مشرک بالخصوص اس سے عزت طلب کیا کرتے تھے۔ عزّٰی کا بت مکہ اور طائف کے درمیان نصب تھا۔ لوگ اس کے سامنے بھی رکوع وسجود کرتے اور اس کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے تھے۔ 3۔ منات : اس کا مجسّمہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے قدید کے مقام پر رکھا ہوا تھا۔ عرب کے بعض قبائل حج سے فارغ ہو کر سیدھے منات کے مندر پر جاتے اور عرفات سے ہی لبیک یامنات کہنا شروع کردیتے اور وہاں پہنچ کر منات کا طواف کرتے۔ قرآن مجیدنے منات کو تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے اور اس کے لیے ” اَ لْاُخْریٰ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے واضح کیا گیا ہے کہ یہ مشرکین کا تیسرا بڑا بت تھا۔ اس کا احترام لات اور عزّٰی سے نسبتاً کم تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے نزدیک اس کا دیدار حج کے بعد دوسرے حج کا درجہ رکھتا تھا۔ 4۔ ہُبل : ہُبل کو بیت اللہ کی کی چھت پر رکھا گیا تھا۔ مشرک اسے رب الارباب کا درجہ دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُ حد کے میدان میں جب مکہ والوں کو جزوی طور پر فتح حاصل ہوئی تو ابو سفیان نے اُعْلو ہبل کانعرہ لگایا جس کا صحابہ (رض) نے ” اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَ اَجَلْ“ کے نعرے سے جواب دیا۔ قرآن مجید نے تین بڑے بتوں کا نام لیا ہے۔ تینوں کے نام ہی مؤنث ہیں اور آج بھی چین، جاپان، برما اور ہندوستان کے اکثر بتوں کے نام عورتوں کے نام پر اور ان کی شکلیں بھی عورتوں جیسی بنائی گئی ہیں۔ جو نہایت خوبصورت اور پرکشش ہوتی ہیں۔ جس طرح مکہ والوں کا عقیدہ تھا کہ ملائکہ ” اللہ“ کی بیٹیاں ہیں اسی طرح جاپان، چین اور دیگر ممالک کے کروڑوں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین کی سوئی ہوئی فطرت کو بیدار کرنے کے لیے سوالیہ انداز میں سمجھایا ہے کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور ” اللہ“ کے لیے بیٹیاں ؟ حالانکہ نہ اس کے بیٹے ہیں اور نہ بیٹیاں۔” یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے وہ تو اس سے پاک ہے۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت ہے، اور ہر کوئی اس کا تابعدار ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کو ابتداً پیدا کرنے والا ہے۔ جو کام کرنا چاہتا ہے تو صرف حکم دیتا ہے کہ ہوجا وہ ہوجاتا ہے۔“ (البقرۃ: 116، 117) کتنی بری تقسیم ہے۔ سوچو اور غور کرو کہ کس طرح گناہ در گناہ کا ارتکاب کیے جاتے ہو۔ پہلاتمہارا گناہ یہ ہے کہ اللہ کی بیوی نہیں اور دوسرا گناہ یہ ہے کہ اس کی اولاد نہیں تم کہتے ہو کہ اس کی اولاد ہے۔ (مریم : 91، 92) کسی کو اللہ کی اولاد کہنا بہت بڑا گناہ ہے : ﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْـمٰنُ وَلَـدًا لَّـقَدْ جِئْتُـمْ شَيْئًا اِدًّا تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْـمٰنِ وَلَـدًا وَمَا يَنْـبَغِىْ لِلرَّحْـمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَـدًا﴾ (مریم : 88تا92) ” کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ بہت ہی بیہودہ بات ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے الرحمان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الرحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) أُرَاہُ یَقُول اللَّہُ شَتَمَنِی ابْنُ آدَمَ وَمَا یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَشْتِمَنِی، وَتَکَذَّبَنِی وَمَا یَنْبَغِی لَہُ، أَمَّا شَتْمُہُ فَقَوْلُہُ إِنَّ لِی وَلَدًا وَأَمَّا تَکْذِیبُہُ فَقَوْلُہُ لَیْسَ یُعِیدُنِی کَمَا بَدَأَنِی) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ﴾) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ میرا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میں نے اولاد پکڑی ہے اور مجھے جھٹلانا اس کا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ نہیں لوٹایا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا۔“ مسائل: 1۔ مشرکین کے اکثر بتوں کے نام مونث ہوتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے نہ بیٹے ہیں اور نہ بیٹیاں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مشرکین ہمیشہ غلط باتیں کرتے ہیں۔