وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ
ستارے [١] کی قسم جب وہ ڈوبنے لگے۔
فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : سورۃ الطور کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ جب ستارے غروب ہونے کے وقت ہو تو اپنے رب کو یاد کیا کرو۔ اس مناسبت سے سورۃ النجم کا آغاز ستارے کی قسم سے ہورہا ہے۔ عربی زبان میں حرف واؤ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اسے قسم کے معنٰی میں استعمال کیا گیا ہے۔ رب ذوالجلال کا ارشاد ہے کہ مجھے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم۔ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی بھٹکا ہے۔ نبی معظم (ﷺ) کے بارے میں اہل مکہ یہ پراپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ آپ صحیح راستے سے بہک گئے ہیں، کچھ لوگ کہتے کہ محمد (ﷺ) گمراہ ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ اہل لغت راستہ بھول جانے والے مسافر کے لیے ضلّ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جو شخص اپنے نفس کی پیروی میں یعنی جان بوجھ کر صحیح راستے سے ہٹ جائے اس کے لیے ” غَوٰی“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ رب ذوالجلال نے ان الزمات کی تردید کرنے سے پہلے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہے۔ صاحب سے مراد نبی معظم (ﷺ) ہیں اور ” کُمْ“ کی ضمیر کے مخاطب اہل مکہ ہیں۔ عربی زبان میں عام طور پر صاحب کا لفظ پرانے ساتھی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صاحب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) رشتے، ناطے اور رہن سہن کے حوالے سے تمہارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزارا ہے تم اس کے حسب ونسب، بچپن، جوانی اور اس کی جلوت اور خلوت سے پوری طرح واقف ہو۔ اعلان نبوت سے پہلے اور اب تک اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی اور نہ ہوگی کہ جس بنا پر انہیں بہکا ہوا یا بھٹکا ہوا کہا جائے۔ ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ان لوگوں کی بھی نفی کی گئی ہے جو سمجھتے تھے کہ انسان کی قسمت میں ستاروں کا عمل دخل بھی ہوا کرتا ہے۔ ستارے کے ڈوبنے کا ذکر فرما کر واضح کیا ہے کہ جو ڈوب جائے وہ کسی کی بگڑی نہیں بنا سکتا ہے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمائی تھی کہ ڈوبنے والے معبود یعنی مشکل کشا نہیں ہوتے۔ (الانعام : 76تا80) مسائل: 1۔ اللہ کے رسول کو مشرکین بہکا ہوا کہتے تھے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم اٹھا کر فرمائی ہے۔