سورة آل عمران - آیت 183

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(یہودی وہ لوگ ہیں) جنہوں نے کہا تھا کہ: ’’اللہ نے ہم سے عہد [١٨١] لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک (اس سے یہ معجزہ صادر نہ ہو) کہ وہ ہمارے پاس قربانی لائے جسے آگ کھا جائے‘‘ آپ ان سے کہئے کہ: مجھ سے پہلے تمہارے پاس کئی رسول آچکے جو واضح نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی جو تم اب کہہ رہے ہو۔ پھر اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو تم نے انہیں قتل کیوں کیا تھا ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 183 سے 184) ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ پر فقر کا الزام لگا کر یہودی مسلمانوں میں بخل کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کی ذات اور دین سے روکنے کے لیے قربانی کے جل کر خاکستر ہونے کی جھوٹی شرط پیش کرتے جس کی یہ کہہ کر تردید کی گئی ہے کہ پہلے انبیاء میں سے کچھ نے یہ معجزہ بھی دکھایا تھا پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا؟ یہودی کسی صورت بھی رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تھے اور ایسا ہی ان کا رویّہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ بات بات پر اعتراضات، ہرمسئلے کو سوالات کے ذریعے الجھانے اور بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرتے۔ جب نبی محترم (ﷺ) کے سامنے ہر طرح لا جواب ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے ذمّہ بات لگاتے کہ در اصل اے محمد (ﷺ) ! ہم آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی رسول پر ایمان نہیں لانا جب تک وہ رسول قربانی ذبح نہ کرے جسے تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے آئی ہوئی آگ نگل جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے بار بار مطالبہ کی وجہ سے بعض انبیاء کے دور میں یہ واقعات رونما ہوئے کہ جو نہی قربانی پیش کی گئی آسمان سے آگ آئی اس نے اسے جلا کر خاکستر کردیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اس شخص کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں مستجاب ہوچکی ہے اور یہ نبی سچا ہے۔ اس بات کو یہود نے اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جیسے یہ نبوت کے لیے لازمی نشانی ہو۔ حالانکہ تورات اور انجیل میں نبی آخرالزمان (ﷺ) پر ایمان لانے کے لیے ایسی کسی شرط کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اے نبی! ان سے پوچھیے کہ مجھ سے پہلے بے شمار رسول ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھ آئے اور وہ چیز بھی انہوں نے کر دکھائی جس کا تم مطالبہ کرتے ہو اگر تم اپنی اس حجت میں سچے ہو تو بتاؤ کہ قربانی کے جل کر راکھ ہونے اور واضح دلائل آنے کے باوجود تم نے پہلے انبیاء کو قتل کیوں کیا؟ اس کے بعد آپ کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو بلاشبہ پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا ہے۔ جبکہ یہ انبیاء واضح دلائل لے کر آئے تھے اور حضرت داوٗد اور عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی روشن کتابوں اور کھلے معجزات کے ساتھ آئے تھے۔ جھٹلانے والوں نے ان کی بھی تکذیب کی۔ سورۂ یٰس میں یہاں تک بیان ہوا کہ ایک بستی میں پہلے ایک رسول آیا پھر دوسرے رسول بھیجے گئے اور ان کے بعد تیسرے نبی مبعوث کیے گئے جنہوں نے ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق فرمائی لیکن اس کے باوجود لوگوں نے تینوں نبیوں کو جھٹلایا اور ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ ﴿وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ اِذْجَآءَ ہَا الْمُرْسَلُوْنَ اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مُّرْسَلُوْنَ﴾ [ یٰسین : 13، 14] ” ان کے سامنے اس بستی کے رہنے والوں کی مثال بیان کرو۔ جن کے پاس پیغمبر تشریف لائے جب ہم نے ان کی طرف دو رسول مبعوث کیے تو انہوں نے دونوں کو جھٹلایا۔ ہم نے تیسرے کو بھیجا تینوں پیغمبروں نے لوگوں کو بتلایا کہ ہم رسول اور پیغمبر ہیں۔“ لہٰذا اے محبوب پیغمبر! تمہیں دل چھوٹا کرنے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿فَإِنَّھُمْ لَایُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بآیَات اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ﴾ [ الانعام :33] ” یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے لیکن ظالم لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ یہودی اپنی صداقت کے لیے من گھڑت دعوے اور جھوٹی نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 2۔ رسول اللہ (ﷺ) سے پہلے انبیائے عظام کو معجزات اور آسمانی کتابیں پیش کرنے کے باوجود جھٹلایا گیا۔ تفسیربالقرآن : حقائق کو جھٹلانا اہل کفر کا وطیرہ ہے : 1۔ اہل کفر انبیاء کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (صٓ :14) 2۔ باطل پرست اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ (المائدۃ:86) 3۔ کفار قیامت کو جھٹلاتے ہیں۔ (الروم :16) 4۔ کفار اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ (المائدۃ:103)